جی 20 اجلاس اور ڈالر

55

بھارت کی میزبانی میں ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل کے سلوگن سے جی 20 کا اٹھارواں سالانہ سربراہی اجلاس دس ستمبر کو نئی دہلی میں اختتام پذیر ہوتے ہی گروپ کی آئندہ سربراہی برازیل کے حصے میں آ گئی ہے۔ نیا سربراہ دسمبر میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالے گا۔ حالیہ انعقاد پذیر اجلاس سے ویسے بھی دنیا کو کچھ زیادہ توقعات نہیں تھیں حالانکہ کم آمدنی والے ممالک پر قرضوں کا بوجھ، موسمیاتی تبدیلیاں اور یوکرین روس جنگ کی وجہ سے بڑھنے والے افراطِ زر جیسے مسائل تشویشناک ہو چکے ہیں لیکن اصل مسائل کے بجائے اِس گروپ کے ممبر ممالک کی ترجیحات اور نظر آئیں اٹلی کے دارالحکومت روم میں 2021 کے سربراہی اجلاس میں گلوبل وارمنگ کے خلاف موثر اقدامات کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا مگر 2022 میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس میں نہ صرف سرمایہ کاری بڑھی بلکہ رواں برس مزید دس فیصد اضافے سے 150 بلین ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ہے جبکہ جی 20 کے سائنسدان متفق ہیں کہ گلوبل وارمنگ کم کرنے کے لیے کوئلے کا استعمال روکنا ضروری ہے۔ موجودہ اجلاس میں تو روس اور چین جیسے بڑے ممالک کے صدور کی عدم شرکت اور محض نمائندگی سے عملدرآمد کی شرح مزید گرنے کا امکان ہے حالیہ اجلاس میں قابلِ تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے سالانہ چالیس کھرب ڈالر کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہوئے کوئلے سے بجلی کی پیداوار مرحلہ وار کم کرنے کی کوششیں تیز کرنے پر اتفاق ہوا لیکن عملاً کسی بھی نتیجہ خیز اقدام سے پہلو تہی کی گئی۔
اجلاس کے دوران امریکہ اور یورپی ممالک نے کوشش کی کہ افتتاحی دن کے مشترکہ اعلامیے میں یوکرین کے خلاف جارحیت پر روس کا نام لیکر مذمت کی جائے لیکن ایسی کاوشوں پر اُس وقت اوس پڑ گئی جب اکثر ممبر ممالک نے جغرافیائی سیاسی مسائل میں الجھنے سے گریز کرتے ہوئے اقتصادی ترقی کی طرف جامع پیش رفت پر اکتفا کیا البتہ روس کا نام لیے بغیر مطالبہ کیا گیا کہ طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ روس کا نام لیے بغیر ہی جوہری ہتھیاروں کا استعمال یا ایسی کسی دھمکی کو بھی ناقابل قبول کہا گیا، بالی اجلاس میں یوکرین کو دعوت دے کر بلایا گیا لیکن نئی دہلی میں تو مدعو تک نہیں کیا گیا جو امن پسند حلقوں کے لیے کافی پریشان کُن ہے۔ ماہرین اِس اجتناب کی وجہ امریکہ کی طرف سے ڈالر کی اجارہ داری کو دیگر مسائل پر فوقیت دینا قرار دیتے ہیں۔ اِس میں ابہام نہیں کہ عالمی امور پر امریکی گرفت کمزور ہونے سے ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسیوں یوآن، یورو اور روپے وغیرہ میں تجارت کا حصہ بڑھتا جا رہا ہے، اس سے پریشان امریکہ بڑے اقتصادی ممالک کو منظم کرنے میں مصروف ہے۔ حالانکہ یوکرین جنگ کے تناظر میں حالیہ اجلاس نہایت اہم تھا مگر امریکہ نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کیا ہے کہ اصل مسائل کے بجائے چین کے بڑھتے عالمی کردار کو محدود کرنا اُس کی اولین ترجیح ہے حالانکہ صدر بائیڈن کا دعویٰ ہے کہ وہ چین کو تنہا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔
نئی اقتصادی راہداری بنانے اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو ریل سے جوڑنے اور بعد میں بندرگاہ کے ذریعے اِن کا بھارت سے رابطہ قائم کرنے کا خیال نیا نہیں پرانا ہے نیز خلیج اور یورپ تک توانائی اور تجارت کے تبادلے کو عملی جامہ پہنانے کی تجویز بھی نئی نہیں، اِس اقتصادی راہداری میں بجلی اور ہائیڈروجن کی پائپ لائنیں شامل ہیں۔ حالیہ اجلاس کے دوران اِس حوالے سے معاہدے کی مفاہمتی یاداشت پر سعودی عرب، امارات، امریکہ، بھارت، یورپی یونین اور دیگر شراکت داروں نے دستخط کر دیے ہیں جسے عالمی منظر نامے پر چینی کردار کو محدود کرنے اور متبادل منصوبے شروع کرنے کی کوششوں کے حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ امریکی صدر معاہدے بارے کہتے ہیں کہ یہ حقیقت میں ایک بڑا سودا ہے جو دو براعظموں کی بندرگاہوں کو جوڑنے میں پل کا کردار ادا کرے گا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان  نے اِس معاہدے کو باہمی انحصار مضبوط بنانے اور مشترکہ مفادات کے حصول میں مددگار بننے والا منصوبہ جبکہ میزبان مودی نے آنے والی نسلوں کے لیے بڑے خوابوں کے بیج بونے سے تعبیر کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے لیے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ’ٹروجن ہارس‘ کی حیثیت رکھتا ہے اسی لیے وہ جی 20 فورم کو بھی جلد سازشوں کا محور بنتا دیکھ رہے ہیں۔
بظاہر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے کے لیے ایک کثیر الملکی ریل اور بندرگاہوں کے وسیع تر معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اِس سے کم اور درمیانی آمدنی کے حامل ممالک کو فائدہ ملے گا نیز مشرقِ وسطیٰ کا عالمی تجارت میں کردار مزید اہم ہو گا۔ یہ بات اتنی سادہ نہیں جیسے بیان کی جا رہی ہے۔ ریل اور بندرگاہوں کے معاہدے پر دستخط ہونا اہم پیش رفت ضرورہے لیکن یہ معاہدہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا توڑ ہے اسی لیے ماہرین اِس معاہدے کی تکمیل کے حوالے سے زیادہ خوش گمانی نہیں رکھتے کیونکہ بھارت کے پاس چین کی طرح نہ تو وافر سرمایہ ہے اور نہ ہی تکنیکی مہارت۔ اِس حوالے سے اُسے امریکہ پر انحصار کرنا ہو گا۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ معاہدہ قابلِ عمل اور سرمایہ کاری کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا تو سعودیہ کی فلسطین کے حوالے سے اسرائیل پر بے اعتباری جیسے مسائل نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ اِن مسائل کو معاہدے سے قبل حل کرنا ضروری تھا لیکن کرنے والے اصل کام نظر انداز کرتے ہوئے لمبی چھلانگ لگا دی گئی۔
معاشی نظام کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے اور درپیش مسائل حل کرنے کے ساتھ جی 20 میں پائیدار ترقی، ماحولیاتی تبدیلی، بدعنوانی، زراعت، صحت اور توانائی جیسے مسائل کا جائزہ لے لیکر حل کے لیے رُکن ممالک میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کا عزم تو کیا جاتا ہے لیکن عمل کی نوبت کم ہی آتی ہے، وجہ امریکہ و چین مسابقت کے ساتھ روس کا عدمِ تعاون ہے۔ موجودہ اجلاس میں تو امریکی اور روسی وفود میں ملاقات تک نہیں ہو سکی۔ ایسی نااتفاقیاں تنظیم کی طرف سے پاس کی جانے والے قراردادوں پر عملدرآمد کی شرح کم کرتی ہیں چین جیسی دنیا کی سب سے زیادہ ترقی کرتی معیشت سرمایہ دارانہ نظام کو للکارنے کی پوزیشن میں ہے اور وہ چاہے ابھی محدود پیمانے پر ہی سہی ڈالر کی متبادل کرنسیوں میں تجارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جسے روکنے اور ڈالر کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے امریکہ نے بھارت کو میدان میں اُتار تو دیا ہے لیکن حقائق یہ ہیں کہ تیز رفتار ترقی کے باوجود بھارت اور چین کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ چین اُس سے بہت آگے ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوتریس  نے خبردار کیا ہے کہ آپسی جھگڑوں سے باہمی کشمکش بڑھ سکتی جس سے عوامی اعتماد میں کمی آ سکتی ہے۔ جی 20 اعلامیے میں شرکا نے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے قرض کے خطرات کو جامع اور منظم انداز میں حل کرنے پر اتفاق کیا، تاہم اِس حوالے سے کوئی طریقہ کار نہیں بنایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جی 20 گروپ ڈالرکی بالادستی قائم رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ بھارت کی نظر اپنے نفع پر ہو گی اور وہ روس کے بعد اب امریکی دھڑے کا حصہ بن کر ثمرات حاصل کرنے کے چکر میں ہے، وہ کسی عالمی طاقت کے مفاد کے تحفظ میں اپنے فوائد ہرگز داؤ پر نہیں لگا سکتا۔

تبصرے بند ہیں.