حیرت ہے شکایات ملک گیر اور ازالہ صفر! پاکستان ایسے نادرۃ الارض اور عجائب الدھر میں ہی ایسا ممکن ہے۔ بجلی کے بلوں سے چیخیں نکل جائیں اور مہنگائی سے لوگ مر مر کے جیئں ایسا کسی اور ملک میں ممکن ہے؟ کہر کی بدلی برسے اور جبر کی چکی چلے تو حیات میں امن ممکن ہے۔ تمہی منصفی سے کہو کہ اس طرح حکومت اور حکمرانی کا حق ادا ہوا؟ عوام بجلی کے بلوں پر دہائی دے رہے، شور مچا رہے بلکہ چیخ رہے مگر ہمارے شہنشاہ،کج کلاہ اور ظل الہہ شان بے نیازی سے فرمان جاری کر رہے بجلی کا بل تو دینا پڑے گا۔ نہیں کاکڑ صاحب نہیں یہ کسی عوامی حکمران کا لہجہ نہیں۔کوئی عوامی نمائندہ ایسے الفاظ کا چناؤ نہیں کر سکتا جو رستے زخموں پر نمک چھڑکیں۔ کبرو نخوت اور سرکشی و بغاوت کی زبان میں بجلی کے بے تحاشا اور ظالمانہ بلوں کو غیر اہم مسئلہ قرار دینا آپ کو زیب نہیں دیتا۔ نگران حکومت کے بس میں کچھ نہیں اور ریلیف کا کوئی راستہ بھی موجود نہیں توگھر سدھاریئے۔ کاکڑ صاحب آپ اپنے مہربانوں کی بدولت آج ہیں اور کون جانے کل کون ہوگا لیکن آپ کا یہ سرد رویہ،عوام سے رقیبوں جیسی بے رخی اور ناکامی و نااہلی تاریخ میں لکھی جا چکی۔ کون ہے جو عوام کے زخموں پر دلاسوں کے پھاہے رکھے، کون ہے جو بلکتے لوگوں کو امن کی نوید اور سکون کی نیند دے۔
غریبوں کے گھروں میں بجلی کے بلوں سے آگ لگی ہے اور حکمرانوں کی توپوں کے دہانے شعلے اگلنے چلے ہیں۔ اس پر بھی انہیں لیڈری و رہنمائی کا غرہ اور تفخر ہے؟کیا یہی ہے ان کی حکومت، ان کی حکمت اور ان کی سیاست؟ چلیے چھوڑیئے ذرا نگران حکام سے کوئی بھی سیاست کی اصطلاحی تعریف تو کرے۔”سیاست“ نا ممکنات میں سے ممکنات کا راستہ تلاش کرنے کا نام ہے۔ کاکڑ صاحب اور ان کے حواری اگر ناممکن سے کوئی ممکن راستہ نہیں بنا سکتے تو پھر حکومت کا جامہ ان کی قامت پر جچتا نہیں۔ عوام کوئی کھیلن کو چاند نہیں مانگ رہے، آسمان سے تارے توڑ لانے کا مسئلہ در پیش ہے نہ ہی کوئی مچل رہا کہ مریخ یا مشتری سے کوئی نسخہ جالینوس ڈھونڈ لائے۔ کم ازکم بجلی چوری روکی جا سکتی ہے، سرکاری محکموں کے لا محدود اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔بجلی پر رنگ برنگے، نقش و نگار سے مزین اور لایعنی و بے معنی ناموں سے مرصع بے تحاشا ٹیکس تو کم کیے جا سکتے ہیں۔بجلی کے ایک ہی بل پر ہر ماہ تین بار جی ایس ٹی کی وصولی۔ پہلے بجلی کی پیداوار پر، دوسری بار فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ پر جی ایس ٹی، تیسری بار مجموعی بل پر بھی جی ایس ٹی کی وصولی۔حکومت کے علاوہ تقسیم کار کمپنیاں بھی پانچ اقسام کے الگ ٹیکس لیتی پھرتی ہیں۔ دہائی خدا کی 25 ہزار سے اوپر کے بل پر انکم ٹیکس بھی لیا جاتا ہے۔ چنگیز خان یا امیر تیمور لنگ کی ظالمانہ حکومتیں بھی ہوتیں تو شاید عوام پر اتنا کڑا اور بڑا لگان لگانے سے پہلے بار بار سوچتیں۔ لیکن پاک سر زمین پر کس کے منہ میں 32 دانت ہیں یا کس کا سینہ 36 انچ چوڑ ا ہے کہ پوچھے یہ ظلم عظیم عوام پر کیوں؟
افغان پالیسی، کشمیر پالیسی، پاک امریکا تعلقات، فوجی بجٹ، عدالتی بجٹ، قرض پالیسی، بجٹ سازی، سرکاری پروٹو کول، حکومتی اخراجات، جمہوری نظام کیخلاف سازشیں، بے تحاشا آبادی، مذہبی انتہا پسندی، جیشوں اور جتھوں کی تشکیل۔۔۔ کس کس کا رونا روئیں کہ انہی بے ڈھنگی پالیسیوں نے آج پاکستان میں بجلی عوام کے لیے نعمت نہیں عذاب بنا ڈالی۔ بجلی اور مہنگے پٹرول پر عوام میں سے ابھی زبانیں چند کھلی ہیں لیکن آنکھیں بہت سوں کی کھلی ہیں۔ اب دوسری زبانیں کھلنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ عوام احتجاج درج کرا رہے اور سیاہ وسفید کے مالک بے حسی کے بستر پر غفلت کی چادر تانے سو ر ہے لیکن کسے خبر آنے والے کل کیا ہو جائے۔کیا عجب مشتعل لوگ جلال میں آجائیں اور کسی نہ کسی کا تخت الٹ کر پھینک دیں۔ اصل طاقتوروں کا اطمینان اور بے اصل حکمرانوں کا سکون اپنی جگہ لیکن اب محروم اور مظلوم عوام میں اضطراب گھر کر گیا ہے۔لوگ تنگ آ چکے اور مہنگائی نے انہیں مار ڈالا ہے۔ عوامی اضطراب کی کیفیت کے بعد فسادات یا بغاوت میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔ فہمیدہ و سنجیدہ حکمران ایسی صورتحال کو الارمنگ اور دل دردمند اور فکر ارجمند رکھنے والے سیاستدان وارننگ سمجھا کیے۔
کوئی کلام نہیں کہ موجودہ مہنگائی کی ذمہ داری سے شہباز شریف کو مبرا اور اسحاق ڈار کو ماورا نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہی کی پوچ پا لیسیوں اور ہیچ منصوبوں کے سبب آج غریب عوام جی جی کر مر رہے اور مر مر کے جی رہے۔ ریاست بچانے کے پر فریب نعرے کے پردے میں انہوں نے اشرافیہ کو بچایا اور ڈھیروں بوجھ ڈھور ڈنگروں کی طرح غریبوں پر لاد دیا۔ یہ بھی ماننا اور جاننا چاہئے کہ آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی ان سے بھی پہلے کپتان نے کی تھی۔ کرہ ارض اور کائنات میں کپتان تو خیر ایک ہوئے کہ اگر انہیں عدم اعتماد سے گھر نہ بھیجا جاتا تو آج صورتحال انارکی اور طوائف الملوکی ایسی ہوتی۔ انہوں نے معیشت کی بنیادوں میں وہ زہریلی سرنگیں بچھائی ہیں کہ صاف کرتے کرتے زمانہ بیت رہے گا۔ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ ماضی کے ملبے پر بیٹھے قبائل و ملل محرومی کے ماتم سے نہیں نکل پاتے۔ انوارالحق کا کڑ کو چاہئے کہ ماضی کو چھوڑیں حال میں کوئی ہنر آزمائیں۔نہیں تو لانے والے بوجھ اٹھائیں اور انہیں چاہئے کہ کوئی تیر چلائیں تاکہ عوام کو اس جان لیوا مہنگائی سے نجات ملے۔ لیکن کیا کریں کہ پتھروں کی بستی میں صورتحال اچھی نہیں اور کوئی رہبر دکھائی نہیں دیتا۔ظالموں نے ریلیف توکیا دینا تھا الٹا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا ڈالیں۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں نکمے اور نکھٹو سینیٹرز نے کہا مفت بجلی نہیں روک سکتے، بجلی چوری نہیں روک سکتے، لائن لاسز نہیں روک سکتے، بجلی کی قیمت کم نہیں کرسکتے، آئی پی پیز معاہدے پر مذاکرات نہیں کرسکتے، گردشی قرضوں کو کم نہیں کرسکتے۔ کسی ستم ظریف نے تنگ آکر تنک کر پوچھا پھر کیا کرسکتے ہو؟ جواب ملا بجلی مزید مہنگی۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.