آج کل ملک کے سیاسی و معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ ایک تشویش کا عالم ہے۔ دامنِ امید ہاتھ سے چھوٹا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد ملک چھوڑ چکی ہے اور باہر جانے والوں کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔ ملک کی موجودہ سیاسی اور معاشی کسمپرسی کا عالم دیکھ ایک نوجوان سوال کرتا ہے کہ میرے لیے اس ملک میں کیا ہے؟ میرا مستقبل یہاں کیسا ہے؟ جس ملک میں انصاف ٹکے ٹوکری ہو جائے، طاقتور طبقہ خود کو کسی قانون کے تابع نہ سمجھے اور قانون کی لاٹھی صرف کمزور کی پیٹھ پر برستی چلی جائے، وہاں درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان آخر کس امید پر بیٹھا رہے؟ جس ملک میں قانون طاقتور کو کٹہرے میں کھڑا کرنے سے قاصر ہو، اور ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریب آدمی کے گلے کا جوا ہو، وہاں عام آدمی ملک میں رہ کر محنت کرنے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرنے میں عافیت کیوں نہ سمجھے؟ جہاں سچ اور جھوٹ باہم خلط ملط کر دیے جائیں، وہاں مسافروں کے لیے سمتوں کا تعین گڈمڈ ہو جاتا ہے۔ ایسے حبس زدہ ماحول میں قوم اپنا راستہ تلاشنے اور تراشنے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے۔
آج کا کالم آج کے بچوں کے نام ہے۔ ہم انہیں وطن سے عقیدت اور حب الوطنی کے گیت نہیں سنائیں گے۔ عقیدت کے نام پر ان کی حریتِ فکر رہن میں نہیں رکھوائیں گے، زمینی حقائق سے نگاہیں چرانے کا سبق نہیں دیں گے، بلکہ عام روز مرہ قابلِ فہم انداز میں کچھ باتیں کریں گے۔
ملک کی مثال ایک گھر کی سی ہے۔ تصور کریں کہ آپ کا ایک گھر ہے، دور دراز گاؤں میں۔ آپ کا گھر، گھر چلانے والوں کی کم کوشی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے، مخدوش حالت میں پہنچ جاتا ہے۔ گھر کے معاشی انتظامات نااہل لوگوں کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں اور گھر پر بے تحاشا قرضہ چڑھ جاتا ہے۔ محلے والے قرض دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی گھر کی کوئی چیز بھی گروی رکھوا لیتے ہیں۔ گلوبل ویلیج میں ہر جگہ یہی چلن ہے۔ فرض کرتے ہیں، گھر میں پچیس افراد ہیں۔ ہر فرد ایک کروڑ کی نمائندگی کر رہا ہے۔ یہ گھر ان افراد کے دادا نے بڑی محنت اور بڑے ہی جانی و مالی نقصانات جھیل کر بنایا تھا۔ دادا کا خیال تھا کہ اس کے بچوں کو ہندو بچے تنگ کرتے ہیں، ان سے کھانے پینے کی چیزیں چھین لیتے ہیں، ان کی دینی تہذیب کی تضحیک کرتے ہیں اس لیے بہتر ہے کہ اپنے بچوں کے لیے ایک الگ گھر بنا لیا جائے۔ بابا نے جسیے تیسے اپنی زندگی کے آخری ایام میں صبح شام محنت کر کے، بچوں کو ایک الگ گھر دلا دیا۔ دادا کی زندگی نے وفا نہیں کی۔ دادا اگرچہ قانون دان بھی تھے لیکن انہیں اپنی وصیت کو کسی قانونی دستاویز کی شکل دینے کی مہلت نہیں مل سکی۔ بس دادا کے گزرنے کی دیر تھی کہ گھر میں دھما چوکڑی مچ گئی۔ جس کے ہاتھ میں جو آیا، وہ اس کا مالک بن بیٹھا۔ جس کے جی میں جو آیا، اس نے اپنی خود ساختہ ڈیوٹی سنبھال لی۔ ایک دوسرے کے کاموں میں بے جا مداخلت کے واقعات ہونے لگے۔ جس کے ذمے کچن تھا، اس نے کچن کا سامان لانے میں گھپلے شروع کر دیے۔ جسے چوکیداری دی گئی تھی، وہ بندوق اٹھا کر کچن میں گھس گیا۔ جس کے ہاتھ میں ناپ تول کے لیے ترازو دیا گیا تھا، وہ بھی بندوق دیکھ کر ڈر گیا اور غلط ملط تولنے لگا۔ جس کے ذمے بچوں کو نماز قرآن پڑھانا تھا، وہ انتظامی معاملات میں مداخلت کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اگر میری مرضی پر نہیں چلو گے تو کافر ہو جاؤ گے۔ اس کی دیکھا دیکھی چوکیدار نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ اگر کچن میں میری مداخلت پر کسی نے اعتراض کیا تو وہ غدار ہو گا۔ یوں ایک دوسرے پر کافر اور غدار ہونے کی تہمتیں سرِ عام لگائی جاتیں۔ ایسے میں گھر والوں کا ایک دوسرے پر اعتماد رخصت ہو گیا۔
ظاہر ہے گھر حسنِ انتظام سے چلتے ہیں اور بد انتظامی سے برباد ہو جاتے ہیں۔ حسنِ انتظام کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر شخص اپنے حصے کا کام کرے اور دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کرے۔ بدانتظامی بدحالی لے کر آتی ہے اور بدحالی اپنے ساتھ قرض لاتی ہے۔ قرض پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔ قرض لینے والا اپنے قرض خواہ کے سامنے آنکھ اٹھا سکتا ہے نہ آواز!! سیاسی آزادی معاشی آزادی کے بغیر ادھوری ہے۔
اس صورت حال میں کچھ لوگ تو گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ گھر والوں کو یہ یقین دلا کر گئے کہ باہر جا کر وہ کمائی کریں اور گھر پیسے بھیجا کریں گے، تاکہ گھر کی مالی مشکلات کم ہو جائیں۔ لیکن بڑے شہروں میں جا کر وہ رنگینیوں میں کھو گئے اور اپنے گھر کا رستہ بھول گئے۔ اب گھر والوں کو پیسے کم اور طعنے زیادہ وصول ہوتے۔ خوشحال شہروں میں جا کر بسنے والوں نے گھر میں بسنے والے بچوں کو یہ کہنا شروع کر دیا کہ تم بھی یہاں آ جاؤ، آخر اس گھر میں رکھا ہی کیا ہے؟ اکثر بچے تو ان کی باتوں میں آ گئے اور باہر جانے کے لیے پر تولنے لگے لیکن کچھ بچوں نے سوچا کہ اس طرح تو گھر ویران ہو جائے گا۔ گھر کی اصلاح کرنے کے بجائے اگر ہم بھی اپنی جان بچانے کے لیے نکل گئے تو گھر کون بچائے گا؟ وہ ڈٹ گئے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ بھی ہو، خواہ ہماری جان چلی جائے، خواہ فاقے برداشت کرنا پڑیں، ہم گھر نہ چھوڑیں گے۔ جو لوگ گھر میں بد انتظامی کر رہے ہیں، ہم انہیں روکیں گے، گھر کا انتظام ٹھیک کریں گے اور گلوبل ویلیج میں اسے ایک معتبر گھر بنا کر دکھائیں گے۔ یہ جاننے سے پہلے کہ اس گھر نے مجھے کیا دیا ہے، یہ جاننا ضروری ہے کہ میں نے اس گھر کو کیا دیا ہے۔
بس! اب سمجھدار بچوں نے وہی فیصلہ کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گھر کو ٹھیک کریں گے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ جو بچہ گھر چھوڑ کر جاتا ہے وہ اپنی پہچان کھو بیٹھتا ہے۔ انہوں نے سوچ لیا کہ وہ گھر سے بھاگنے والے بھگوڑے نہیں بنیں گے، بلکہ ایک دردمند انسان بنیں گے…… مستقل مزاج، قیام کرنے والا انسان…… وہ اپنے لوگوں کا درد بانٹیں گے، اپنے حصے کی روٹی میں دوسروں کو شامل کریں گے، ایثار اور قربانی کا راستہ اپنائیں گے۔ وہ خود غرضی کے راستے پر نہیں چلیں گے۔ انسانوں اور جانوروں میں یہی فرق ہوتا ہے۔ جانور صرف اپنے لیے جیتا ہے، انسان آنے والی نسلوں کے لیے سوچتا ہے۔ اچھے بچوں نے یہی فیصلہ کیا وہ اچھے مستقبل کا انتظار کریں گے۔ اچھے مستقبل کا انتظار وہی کر سکتا ہے جو اچھی نیت کے ساتھ ساتھ اچھے کام بھی کرتا ہے۔
ایسے ہی میں کسی بچے کو اپنے سکول کے زمانے کی ایک نظم یاد آ گئی۔ رالف ایمرسن کی نظم میں کچھ یوں لکھا تھا:
(دولت اور دولت مند نہیں، بلکہ یہ عظیم لوگ ہیں جو اپنی قوم کو عظیم بناتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سچائی اور عزت کی خاطر ڈٹے رہتے ہیں اور تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔ یہی وہ بہادر لوگ ہیں جو اس وقت کام کرتے ہیں جب دوسرے سو رہے ہوتے ہیں۔ یہ اس وقت ہمت سے کام لیتے ہیں جب باقی لوگ ڈر کر بھاگ جاتے ہیں۔ بس! ایسے لوگ ہی اپنی قوم کی گہری بنیاد رکھتے ہیں اور اپنی قوم کو آسمانوں کی بلندیوں تک لے جاتے ہیں۔)
اچھے بُرے حالات خاندانوں پر، قوموں پر آتے رہتے ہیں۔ اچھے لوگ برے حالات میں بھی امید کی شمع لیے کھڑے رہتے ہیں اور ظلمت کو نور میں، اور اندھیرے کو روشنی میں بدل دیتے ہیں …… ظلمت ظلم سے ہے، نور عدل سے۔
ہمارے بابا جی واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے ”حال کے بدحال ہونے کے باوجود مستقل کے خوشحال ہونے کی امید ترک نہ کرنا چاہیے“۔
Prev Post
آرمی چیف کا ازبکستان کا دورہ، چاق وچوبند دستے کی سلامی، ازبک صدر اور وزیر دفاع سے اہم ملاقاتیں
Next Post
تبصرے بند ہیں.