حیا و شرم انسانیت کا بہترین زیور ہے۔ اس وصف کی بنیاد پر حضرت انسان کی اخلاقی تربیت ممکن ہوتی ہے۔ حیا و شرم کا ناپید ہونا اور اسکی جگہ فحاشی کا پھیلنا انسانی معاشرے میں فسق و فجورکا باعث بنتا ہے۔ مضبوط اخلاقیا ت کے حامل معاشروں میں جہاں امن و سکون کا بہتر قیام ممکن ہوتا ہے وہیں آبادی کا نصف یعنی صنف نازک کی عزت و تکریم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ فحاشی کا پھیلنا انسانی معاشروں کی اجتماعی اخلاقیات کے لیے ایک ناسور کا درجہ رکھتا ہے، جو بالآخر ہر پہلو سے زوال کا سبب بنتی ہے۔معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ فحاشی پھیلنے سے خاص طور مردوں کے اذہان اور اخلاقیات پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ وہ خواتین کو عزت کے بجائے ہوس کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں جو معاشرتی بگاڑ کی ایک بڑ ی وجہ بنتا ہے۔ اس صورت حال میں خواتین کا گھروں سے نکلنا اور محفوظ ماحول میں کام کاج کرنا بتدریج مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔اسلامی معاشروں میں حیا و شرم کے کلچر کی اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ صنف نازک کو جتنی تکریم دین اسلام نے دی ہے دیگر مذاہب میں اسکا تصور بھی ممکن نہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فنون لطیفہ انسان کی فکری و جسمانی صلاحیتوں کی نشوونما کرتے ہیں اور ان کے اظہار کا ایک بہترین ذریعہ و موقع فراہم کرتے ہیں۔ آج کے دور میں فلم ہو یا ڈرامہ یا پھر تھیٹر انسان کی فکری صلاحیتوں کے اظہارکا بہترین ذریعہ ہیں۔ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بامعانی اور سبق آموز فلمیں یا ڈرامے انسانوں کی اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تاہم اگر یہاں سے فحاشی کا فروغ شروع ہو جائے تو پھر انسانی معاشرے پر اسکے منفی ترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پراگندہ اذہان کیسے انسانی معاشرے کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں؟
تاہم قبل ازیں بدقسمتی سے غیر معیاری سکرپٹ، کمزور پروڈکشن اور بولڈ سینز کی پکچرائزیشن نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ کبھی لاہور ہی میں ہر سال درجنوں فلمیں بنا کرتی تھیں جو پاکستانی معاشرے کی بہترین عکاس تھیں تاہم اب انکی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سٹیج کا رخ کیا۔ ابتدا میں فردوس جمال، محمد قوی اور سہیل احمد جیسے منجھے ہوئے اداکاروں نے جہاں سٹیج پر اپنی لازوال اداکاری کے جوہر دکھائے تو وہیں ان ڈراموں کے معیاری سکرپٹ نے شائقین سے بے پناہ داد وصول کی۔ تاہم بتدریج یہاں بھی اداکاروں کے بجائے بھانڈوں نے اپنا قبضہ جمالیا۔ ڈرامہ کا سکرپٹ غائب ہوگیا اور صرف بیہودہ اور فحش ڈانس رہ گئے۔انہیں مجرے کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ نتیجتاًخواتین کی ایک بڑی تعداد نے یہاں کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ شائقین کا بھی اخلاقی معیار گر گیا۔ اس وقت ان کی بڑی تعداد محض سٹیج پر گندے اور فحش ڈانس دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ ڈرامہ ایکٹ کی کھل کر خلاف ورزی کی جارہی تھی۔ ایک ڈرامہ رائٹر و ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ہم ہر ڈرامہ کا باقاعدہ سکرپٹ تحریر کرتے ہیں تاہم اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ایک ڈرامہ میں چھ سے آٹھ ڈانس ڈالے جاتے ہیں جہاں ڈانسر لڑکیاں محض اعضا کی بیہودہ نمائش اور گندے اشارے کرتی ہیں جسکا انہیں بھاری معاوضہ ملتا ہے۔ حکومت پنجاب اور خاص طور پر کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا کی جانب سے اس ناگفتہ بہ صورت حال کا نوٹس لیکر لاہور کے تمام سٹیجوں کو سیل کرنا ایک خوش آئند امر ہے اور یہ فیصلہ بھی درُست ہے کہ جب تک سٹیج مالکان اپنا قبلہ درست نہیں کرتے ان تھیٹرز کو بند رکھا جائے۔ پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات و ثقافت نے واضح کردیا ہے کہ یہ اقدام محض لاہور تک محدو د نہیں رہے گا بلکہ پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی فحاشی پھیلانے والے تھیٹرز کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اطلاعات یہی ہیں کہ بدنام زمانہ شالیمار تھیٹر لاہور اورخانیوال کے تھیٹرز بھی سیل کردئیے گئے ہیں۔ نگران وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عامر میر کا کہنا تھا کہ فحاشی اور عریانی پھیلانے والے عناصر فنکاروں کے ترجمان بننے کی کوشش مت کریں،حقیقی فنکار بیہودگی کے خلاف کریک ڈاؤن پر پنجاب حکومت کے ساتھ ہیں، عامر میر نے مزید کہا کہ فحش مجرے کرانے والے عناصر فنکاروں کے نمائندے تسلیم نہیں کئے جا سکتے، پنجاب حکومت ایسے عناصر کی دھمکیوں اور دباؤ میں نہیں آئے گی، عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش میں ملوث عناصر پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا، عامر میر نے واضح کیا کہ ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کا سخت احتساب کیا جائے گا، پنجاب حکومت ڈرامہ ایکٹ میں ترامیم متعارف کرا رہی ہے، ڈراموں میں ڈانس پر پابندی لگا دی جائے گی، ڈرامہ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے پروڈیوسرز کو سزائیں اور جرمانے ہوں گے، نگراں کابینہ کی منظوری کے بعد نیا ڈرامہ ایکٹ نافذ کیا جائے گا،سیل کئے گئے کمرشل تھیٹرز نئے ڈرامہ قوانین کے نفاذ تک بند رہیں گے، عامر میر نے کہا کہ لاہور ڈویژن سے باہر کے تھیٹروں کی مانیٹرنگ جاری ہے،عامر میر نے بتایا کہ شالیمار تھیٹر کو بھی سیل کردیا گیاہے۔ کسی بھی تھیٹر میں فحاشی اور قانون کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے۔ خانیوال میں بھی تھیٹرز کو سیل کردیا گیا ہے۔ پنجاب کے دیگر تھیٹرز کی مانیٹرنگ بھی کی جارہی ہے تمام شہروں کے ڈپٹی کمشنرز کو مراسلے جاری کر دئیے گئے ہیں جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا اسے سیل کردیا جائے گا۔
کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا نے بھی یہ واضح کیا ہے کہ آئندہ سے تھیٹرز میں ڈرامہ کے نام پر مجرے کرانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکومت کا یہ اقدام اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے ذریعے تھیٹر ایک بار پھر عوام کو معیاری تفریح مہیا کریں گے اور سکرپٹ بیس ڈرامہ کی بحالی کی جانب یہ ایک اہم فیصلہ ثابت ہوگا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.