اللہ پاک ہم پر رحم فرمائے۔ ملک کے اقتصادی حالات سنبھلنے میں نہیں آ رہے۔ معیشت کی کشتی ہنوز ہچکولے کھا رہی ہے۔ عمران خان دور حکومت میں مہنگائی کے جس طوفان کا آغاز ہوا تھا، وہ شہباز شریف کی سربراہی میں قائم پی۔ڈی۔ایم کی حکومت میں نہ صرف جاری رہا، بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نگران حکومت سے عوام کو کچھ زیادہ امیدیں نہیں ہیں۔ زیادہ امید رکھنی بھی نہیں چاہیے۔ نگران حکومت کا کام فقط یہ ہے کہ روزمرہ امور نمٹائے، الیکشن کا انعقاد کروائے اور اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر کے واپسی کی راہ لے۔ البتہ دگرگوں معاشی صورتحال کے تناظر میں گزشتہ مہینوں میں جب بھی نگران حکومت کے قیام کی بات چلی۔ معیشت کا ذکر سننے کو ملتا تھا۔ تسلسل کے ساتھ یہ افواہیں زیر گردش رہیں کہ کسی ماہر معیشت کو نگران وزیر اعظم نامزد کیا جائے گا تاکہ معیشت سے جڑے فیصلے کرنے میں آسانی رہے۔ اس تناظر میں میڈیا پر سینیٹر اسحاق ڈار سمیت کئی معیشت دانوں کے نام زیر بحث آئے۔ لیکن تمام تر قیافوں کے برعکس قرعہ فال سینیٹر انوار الحق کاکڑکے نام نکل آیا۔ وزارت خزانہ کی کنجی ڈاکٹر شمشاد اختر کے حوالے کر دی گئی۔ ڈاکٹر صاحبہ ممتاز ماہر معیشت ہیں۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی گورنر رہ چکی ہیں۔ مبہم ہی سہی، تاہم ان کی تعیناتی سے امید بندھی تھی کہ معاشی حالات میں بہتری کے کچھ آثار دکھائی دیں گے۔ عوام کو تھوڑا سا سکون کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔ حالات جوں کے توں رہتے، تب بھی قابل قبول تھا۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ حالات کی ابتری میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جب سے نگران حکومت قائم ہوئی ہے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کے بلوں نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں۔ عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ لوگ بجلی کے بل جلارہے ہیں۔احتجاجاً کاروباری مارکیٹوں کی تالہ بندی کی جا رہی ہے۔ لوگ حکمرانوں کو کوسنے دے رہے ہیں۔
نگران وزیر اعظم نے عوامی ردعمل کے تناظر میں اس صورتحال کا نوٹس لیا۔ عوام کو ریلیف دینے کے لئے اجلاس بلائے گئے۔ لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ نگران وزیر خزانہ نے من و عن و ہی جملہ دہرا دیا ہے جو 2013 میں مسلم لیگ (ن) اور 2018 میں تحریک انصاف کی حکومتوں نے دہرایا تھا۔ فرماتی ہیں کہ معاشی حالات ان کے اندازے سے زیادہ خراب نکلے ہیں۔ اگر اتنے بڑے بڑے ماہرین معاشی حالات کا ندازہ نہیں لگا سکتے تو یہ بذات خود ان کی اہلیت پر ایک سوال ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ بس یہ کہہ کر ہاتھ جھاڑ دینا کہ ہمیں حالات کا اندازہ نہیں تھا۔ اصولی طور پر بڑے بڑے عہدے قبول کرنے والوں کو عوام کو ریلیف دینے کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیے۔ وزیر خزانہ نے صاٖف صاف کہہ دیا ہے کہ مالی گنجائش نہیں ہے اس لئے عوام کو سبسڈی نہیں دے سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرا م پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اگر اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی جاتی یا پروگرام پر عمل نہیں کیا جاتا تو معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بجلی بلوں میں شامل ود ہولڈنگ ٹیکس اورجی۔ایس۔ٹی میں کمی کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ایسا کیا جاتا ہے تو اس سے ٹیکس وصولی کے اہداف پر زد پڑے گی۔ یعنی ایسا کرنا آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ شرائط سے انحراف کے مترادف ہے۔ عوامی مشکلات کو دیکھتے ہوئے حکومتی نمائندوں نے عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے لئے آئی ایم ایف سے ایک پلان شیئر کیا ہے۔ عالمی ادارے کے سامنے یہ نکتہ بھی رکھا ہے کہ چار سو یونٹس سے زائد بلوں والے صارفین کو بجلی بل قسطوں میں ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔ لیکن یہ سب آئی۔ ایم۔ ایف کی اجازت اور منظور ی سے مشروط ہے۔
اسی پر بس نہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کا اثر لامحالہ پٹرولیم مصنوعات پر پڑے گا۔ کچھ دن میں پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے۔ اس سے بجلی کی پیداواری قیمت میں بھی مزید اضافہ ہو گا۔ اس صورتحال میں فی الحال یہ نگران حکومت کا کام ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کی کوئی راہ نکالے۔ پی ڈی ایم حکومت نے حکومت نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں قانون سازی کے ذریعے نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا تھا۔ اس قانون سازی کا جواز دیا جاتا تھا کہ نگران حکومت معاشی فیصلے لینے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے کے لئے با اختیار ہو۔ اب نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے بات کرئے۔ کچھ بھی کر کے عوام کو ریلیف دے۔
معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی حالات میں بھی بے یقینی کی کیفیت نمایاں ہے۔ عمران خان جیل سے باہرآئیں گے یا نہیں۔ نواز شریف ملک واپس کب آئیں گے اور انتخابی عمل میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں۔ انتخابات کب ہوں گے۔ ہوں گے بھی یا یہ معاملہ طول پکڑ جائے گا۔ انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے بحث کئی دن سے جاری ہے۔ صدر اور الیکشن کمیشن کے مابین اختیار کی جنگ جاری ہے۔ وزارت قانون نے صدر کے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وزیر اعظم نے اسمبلی تحلیل کی تھی اس لئے الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدر کے نہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہے۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کے لئے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ ملک کی معیشت کی ابتر حالت اسی سیاسی بے یقینی کا نتیجہ ہے۔ماضی کی حکومتوں کو چلنے دیا جاتا تو قومی معیشت کی صورتحال بہتر ہوتی۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے بہم آئی ایم ایف کی اجازت کے محتاج ہیں۔ چند برس پہلے نواز شریف کے دور حکومت میں باقاعدہ یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کرنے کے بعد اسے گڈ بائے کہہ دیا جائے گا۔ اس زمانے میں بجلی کے کارخانے لگے۔ ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا ہوئی۔ روپے کی قیمت کو استحکام نصیب ہوا۔ پیرون ملک سے سرمایہ کاری آنے لگی تھی۔ سیاسی مخالفین اس زمانے میں ان اقداما ت کو ہدف تنقید بناتے اور اسے مصنوعی صورتحال قرار دیتے تھے۔ منصوبہ سازوں نے نہایت محنت کے بعد جب نواز شریف کو حکومت سے نکالا تو اس کے بعد سے اب تک ملکی حالات کو استحکام نصیب نہیں ہو سکا۔ کاش اس ملک میں احتساب کا کوئی نظام قائم ہوتا۔ سزا اور جزا کا رواج ہوتا تو ان مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا جو سیاسی حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.