شہر اقتدار اسلام آباد کے ایوانوں کی راہداریاں اپنے اندر عجیب و غریب کہانیاں سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہاں بڑے بڑوں کے سورج طلوع پھر کبھی آناً فاناً غروب ہوئے تو کبھی تنگ آ کر نیچے اتار دیے گئے۔ اس شہر میں کیے گئے فیصلوں کے اثرات پورے ملک پر ہوتے نظر بھی آئے اور دیر تک محسوس بھی کیے جاتے رہے۔ آج پاکستان جس شعبے میں اچھے یا بُرے جس بھی مقام پر کھڑا ہے اس کے پیچھے اس شہر میں بیٹھنے والوں کے کیے گئے فیصلوں کا ہاتھ سب سے زیادہ ہے۔
ادب کے میدان میں تو میں کُھل کے کہہ سکتا ہوں کہ اس شہر کے فیصلوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ پچھلے تیس سال سے خاص طور پر چند لوگوں کی اجارہ داری رہی جن میں کچھ شاعر، کچھ نام نہاد شاعر اور پھر کچھ ماہرینِ امراض تعلیم شامل ہیں۔ یہ میری رائے ہے کہ ان میں سے کوئی ایک شخص بھی تخلیقی، تحقیقی یا علمی حوالے سے قابل ذکر نہیں ہے۔
مجھے یاد ہے میں شاید کوئی تیس سال پہلے اکیڈمی آف لیٹرز کی کانفرنس میں آیا تھا اس وقت غالباً فخر زمان اس کے سربراہ تھے۔ ملک کا شاید ہی کوئی معتبر اہل قلم ہو جس نے شرکت نہ کی ہو حتیٰ کہ نوجوان ادیبوں کی بھی بڑی تعداد میں شریک تھی۔ اس کانفرنس کی بہت سی یادوں میں سے ایک دلچسپ بات جو مجھے یاد رہ گئی وہ عطا الحق قاسمی کا کانفرنس میں شرکت کرنے کے بجائے کمرے یا ہوٹل کی لابی میں بیٹھے رہنا اور اکا دکا لوگوں کو پاس بٹھا کر چائے چسکا چلانا تھا۔ میں حیران ہوا۔ آخر پوچھ ہی لیا کہ قاسمی صاحب آپ نے سیشن اٹینڈ نہیں کیا تو جھٹ بولے کے میں سیشن اٹینڈ کرتا ہوں السیشن نہیں اور قہقہہ لگا کر ہنسے۔ میں نے بھی پھر پوچھا کہ اگر ایسا ہے تو آپ کانفرنس کے لیے نہ آتے اگر آپ نے اٹینڈ ہی نہیں کرنا تھی۔۔۔ تو بولے کہ میں اپنے حصے کا یہ کمرہ چائے اور کھابا کیوں چھوڑتا اور پھر اونچا قہقہہ لگا کے دوبار ہنسنے لگے۔
تیس سال پہلے کی اس کانفرنس کے بعد لاتعداد مواقع آئے لیکن حرام ہے کسی میں شمولیت کے لیے کہا گیا ہو۔ بہت دفعہ شرکا میں غیر ادیب شاعر لوگ چہکتے مہکتے دیکھے گئے بلکہ کچھ زیادہ ہی نمایاں دکھائی دیے۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی ایک دفعہ بھی دعوت دی گئی ہو۔ نہ صرف مجھے بلکہ شفیق احمد خان، اعجاز رضوی، علی نواز شاہ، باقی احمد پوری سمیت درجنوں حقیقی شعراء و ادبا کو دانستہ نظر انداز کیا جاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان اداروں میں بیٹھے مہر علی، میر نواز سولنگی، عاصم بٹ اور اختر رضا سلیمی ہم سے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے جھجکتے ہیں حالانکہ ان بیچاروں کا اس میں کوئی قصور نہیں یہ خود پتہ نہیں کس طرح اپنی نوکریاں بچاتے آئے ہیں۔ ہر دفعہ انہیں ایک نئے فرعون کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور نئے سرے سے انہیں اپنی نوکری کا جواز فراہم کر کے رزق کی حفاظت کرنا پڑتی ہے۔ ہم سب ادیبوں کو بھی پتہ ہے کہ اگر ہم اکیڈمی کے دفتر جائیں گے تو اپنی برادری کے انہی لوگوں کے پاس جانے میں عزت بھی محسوس کریں گے اور عافیت بھی اور ہمیں اگر محبت یا عزت سے ملیں گے بھی تو یہی چار درویش اکیڈمی جن کی وجہ سے ادارہ کہلاتی ہے۔ یہ نہ ہوں تو یہ دفتر کسی چوبارے سے زیادہ نہیں جہاں ہر تین سال بعد کسی نئے منتظم اعلیٰ کو صاحب سلام پیش کیے جاتے ہیں۔ خدا خدا کر کے یوسف خشک صاحب سے جان چھوٹی ہے اب دیکھیں نجیبہ عارف صاحبہ کس طرح ادارہ چلاتی ہیں۔ میرے جیسے بہت سے لوگوں کے لیے وہ اس لیے بھی قابل احترام ہیں کہ وہ عامر سہیل جیسے جینئس محقق، نقاد اور شاعر کی ٹیچر ہیں۔ سچی بات ہے میں تو یہ بھی سمجھتا ہوں کہ عامر سہیل اس سیٹ پر موزوں ترین آدمی تھے لیکن اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ سیٹ قابلیت کی بنیاد پر نہیں ملتی۔ اب یہ خود ڈاکٹر صاحبہ پر منحصر ہے کہ کسی پہلے والے کے نقش قدم پہ چلتی ہیں یا اپنا الگ راستہ بناتی ہیں۔ نجیبہ عارف کے حوالے سے ہمیں بغض علی میں خوشی ہے کہ یقیناً وہ بورڈ جس میں افتخار عارف، فتح محمد ملک اور انعام الحق جیسے نوکری خصلت لوگ موجود ہوں وہاں تیسرے نمبر کا امیدوار ان کا نہیں ہمارا امیدوار ہی کنسیڈر ہو گا۔
شاہد حمید کی طرف سے دائر کی جانے والی پٹیشن میں جو موقف اختیار کیا گیا دیکھیں عدالت اس بارے کیا فیصلہ دیتی ہے لیکن ایک بات بڑی پتے کی ہے کہ اگر پہلے نام کو ہی کنسیڈر کیا جانا حتمی ہوتا تو تین نام بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ نجیبہ صاحبہ کا اکیڈمی آ کر بیٹھ جانا اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ وہ کسی دھونس اور دھمکی میں آنے والی نہیں ہیں۔ میرا ان کے لیے مشورہ ہے کہ اللہ نے ان کو موقع دیا ہے تو ایک کام ضرور کریں کہ ادارے میں مفاد پرست، سفارشی، پبلک ریلیشننگ والے مصنوعی اور کمتر درجے کے ادیبوں کی جگہ جینوئن ادبا کو عزت دینے کا کلچر بنائیں۔ کمیٹیوں میں شامل ناموں کی تبدیلی سے اس کا آغاز کریں۔ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے حقیقی اور بڑے لوگوں تک خود پہنچیں اور ان کے لیے ادارے تک رسائی آسان بنائیں۔ اچھی تخلیقات پر حوصلہ افزائی کو رواج دیں۔ ایسے لوگوں کو ایوارڈز کے لیے منتخب کریں اور ایسے نام بھیجیں جن کو اعزازات ملنے سے اعزازات کو عزت ملے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر نجیبہ عارف صاحبہ پچاس فیصد بھی ان گزارشات پر عمل درآمد کر گئیں تو پاکستان کی ادبی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جاتا رہے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.