بیٹے کی نئے کپڑے لینے کی فرمائش پر لاکھوں مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ خزانچی کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ اگلی تنخواہ تک ادھار رقم دے دیں جس پر خزانچی نے کہا کہ لکھ کر دے دیں کہ آپ اگلی تنخواہ تک زندہ رہیں گے اس بات کا سننا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ واپس آ گئے اور بیٹے کو کہا کہ انہی کپڑوں میں گزارا کرو۔ قارئین یہ تھی اسلا م کی حقیقی تصویر جس کا عملی مظاہرہ تاجدار مدینہ ﷺ اور ان کے رفقا کیا کرتے تھے آج ہم آئی ایم ایف سے قرض لینے کیلئے لاکھ جتن کرتے ہیں پھر کہیں جاکر قرض ملتا ہے جب قرض ملتا ہے تو پھر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے ہیں دو دو گھنٹے کی پریس کانفرنس کرکے اپنا قد کاٹھ بڑھاتے ہیں جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ مار لیا ہو ہر آئی ایم ایف معاہدے کے بعد یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ کرے یہ آخری معاہدہ ہوپھر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو پورا کرنے کیلئے عوام کو بجلی، پٹرول کے نرخ بڑھا کر اور نئے نئے ٹیکس لگا کر خودکشیوں پر مجبور کرتے ہیں جیسا کہ اب ہو رہا ہے بجلی بلوں میں اتنا اضافہ کر دیا گیا ہے کہ لوگ سول نافرمانی کی طرف جا رہے ہیں جائیں بھی کیوں نا،مجبور ہو کر راست اقدام اٹھاتے ہیں کیونکہ کوئی سننے والا ہی نہیں آئی ایم ایف کا قیام 1944 میں ہوا تھا جبکہ پاکستان 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا اس کے بعد 1958ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں آئی ایم ایف نے پہلا قرضہ پاکستان کو دیا اس کے بعد آئی ایم ایف پروگراموں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔
تقریباً 50 ہزار ارب قرضہ ملک کے بچے بچے کو مقروض کر گیا باز پھر بھی نہیں آ رہے پہاڑ نما قرض گیا کہاں؟کتنے ڈیم بنائے ہم نے کتنے کارخانے لگائے، گیس کے کتنے ذخائرتلاش کیے کون سا ادارہ ہے جو ہم نے ڈوبتے ڈوبتے بچایا بلکہ ہم نے تو ڈبویا ہی ڈبویا ہے ڈبوتے کیوں نا ان میں بھی مقتدر خاندانوں کی روٹیاں لگی ہیں ان میں بھی مامے چاچے "تائے” اشنان کر رہے ہیں ہمارے دو سیاستدان خاندان ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کی بات کرتے ہیں ان کے اپنے اور بچوں کے بیرون ملک کاروبار ہیں، چند خاندانوں کے ہر دور میں وارے نیارے رہے جن کو ناقص نظام عدل کی وجہ سے ریلیف مل جاتا ہے آج چھپن چھپائی کا کھیل جاری ہے سیاستدانوں نے تو عوام کو "ماموں” بنایا ہی تھا اب عدالتیں بھی یہی کچھ کر رہی ہیں "اک” کیس وچ چھڈ دیو تے دوسرے وچ پھڑ "لوو” کوئی نہیں سوچتا کہ ملک کا دنیا میں امیج کیا جاتا ہے سرراہ کئی دکانوں پر لکھا ہوتا ہے کہ ادھار مانگ کر شرمندہ نہ ہوں کاش آئی ایم ایف بھی یہ تحریر آویزاں کردے کہ ہمیں شرم آجائے ہم ترکیہ کی مثالیں دیتے ہیں آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کی؟ اس کے عمل پر عمل ہم نہیں کرتے ہم تو ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈالنے میں مصروف ہیں مخالفین کی "گچی” دبانے میں لگے ہیں "مج” چوری سے لیکر "پھٹے” چوری تک کے کیس بنا کر مخالفین کو نیچا دکھانے میں لگے ہیں ایسے میں ملک کیا خاک ترقی کرے گا ایسے میں کیا خاک آئی ایم ایف سے جان چھوٹے گی شائد قرض دین والیاں نوں شرم آوندی ہوئے پر اسی تے اتنے ڈھیٹ آں کہ شرم ساڈے لاگوں دی وی نئیں گزردی ہم بھاگ بھاگ کر امریکہ کے "کچھڑ” چڑھتے ہیں، قطر، سعودیہ، ایران، چین سے کیوں نہیں بنا کے رکھتے حالانکہ چین نے تو اعلانیہ ہماری مدد کرکے ڈیفالٹ سے بچایا ہم قطر سے کیوں نہیں مزید تعلقات بہتر کرتے ہم سعودیہ سے تعلقات کو کیوں نہیں وسعت دیتے ہم ایران کو اپنا دست بازو کیوں نہیں بناتے جس نے 71 کی جنگ میں ہمارا ساتھ دیا اور امریکہ کا ساتواں بہری بیڑا آج تک نہ پہنچا؟
اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں یار کہ تو
میں ہر اک شخص سے رکھتا ہوں سروکار کہ تو
ہم ہر ملک سے امیدیں لگا لیتے ہیں لیکن معاشی بحالی کیلئے خود کچھ نہیں کرتے کہ اپنے اللے تللے کے خرچے کم کرکے خزانے پر بوجھ کو کم کیا جائے پروٹوکول کے نام پر روزانہ لاکھوں خرچ کیے جاتے ہیں بجلی بلوں کی وجہ سے پورا ملک سراپا احتجاج ہے اور نگران وزیر اعظم نے اس پر نو ٹس بھی لیا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں تین دن اجلاس ہوئے اور لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا نتیجہ وہی کھودا پہاڑ اورنکلا چوہا، لاکھوں روپے اجلاسوں پر خرچ ہوئے اب کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط دیکھنے کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے، ویسے توہم زرعی ملک ہیں لیکن گندم چاول تک باہر سے منگواتے ہیں ہم ریلوے پی آئی اے پاکستان سٹیل کے منافع بخش اداروں کو کیوں نہیں منافع بخش بناتے پی ٹی سی ایل کا ہم نے ستیا ناس کر دیا کون سا ادارہ ہے جس کے ہم نے پرخچے نہیں اڑائے ترکیہ نے اپنے اداروں کو مضبوط کیا اور عملی اقدمات کر کے آئی ایم سے جان چھڑائی جو ہم نہیں کرسکے ساڈا تے اکو ای مقصد اے عوام اور ملک کے نام پر بینک اور پیٹ بھرو، 2002 میں برازیل نے اپنے قرضوں کی وجہ سے دیوالیہ ہونے سے قبل آئی ایم ایف کا قرض حاصل کیا اس کی حکومت جلد ہی معیشت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئی اور اس نے دو سال قبل ہی اپنا تمام قرضہ ادا کر دیا، آج بےروزگاری، مہنگائی، لاقانونیت کا راج ہے عوام بجلی کے بل اداکرنے سے قاصر ہیں سرکار ہر بندے کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہتی ہے لانا بھی چاہیے لیکن اس کے بدلے عوام کو سہولیات کیا ملتی ہیں یہ سوچنے والی بات ہے؟ آئی ایم ایف کسی کا سگا نہیں وہ قرض بھی دیتا ہے اور چھتر بھی مارتا ہے ایک ہم ہیں کہ کہتے ہیں پا ء جی چھتر جنیں مرضی مار لووپر قرض ضرور”دیو“پھر قرض لینے کے لئے مزید قرض لیتے ہیں قرض اتارنے کیلئے، نئی نسل سوچنے پر مجبور ہے کہ پاکستان بھی کبھی روشنیوں کا ملک بنے گا پاکستان بھی کبھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گا کبھی ہماری بھیک مانگنے کی عادت ختم ہو گی۔
تمہارے دم سے ہری زمینیں
خوشی سے دامن بھری مشینیں
ہیں اس کے با وصف بھیگی بھیگی
تمہاری اشکوں سے آستینیں
میں سوچتا ہوں رہیں گی کب تک
ستم کے آگے جھکی جبینیں
Next Post
تبصرے بند ہیں.