بجلی مہنگی زندگی سستی

60

پانی سر سے اونچا اور سایہ قد سے بڑا ہوچکا اور اب آگے خطرہ ہی خطرہ ہے۔پتھر کے دور میں بھی انسانوں کا کوئی غول کسی دوسرے انسانی غول کے حق میں اتنا مہلک اور مہیب نہ ہو گا جتنا پاکستانی اشرافیہ کا غول۔ مہنگی بجلی سے عوام کی کھا ل کھر چ دی گئی اور مہنگے پٹرول کی حرارت سے ان کی ہڈیاں چٹخ گئیں۔ مہنگائی کے عذاب نے شہریوں کی زندگی کو جلا کر راکھ کردیا اور بے حس حکمرانوں اور ظالم مقتدروں نے یہ راکھ انہیں لباس کی طرح پہنا دی۔ پاکستان میں جن کا حکم چلتا اور کہا کبھی نہیں ٹلتا۔۔۔۔وہ زمین کے معاملوں اور انسانی مسئلوں سے بہت بلند ہو چکے۔ ایسا لگتا ہے وہ تو گویا آسمانوں پر بستے ہیں اور انہیں زمینی مسائل سے کوئی سرو کار کہاں۔ بتایا جاتا ہے کشمیری حکومت عوام سے بجلی کا بل لیتی ہے پر وفاق کو نہیں دیتی۔ اللہ اللہ! پوچھنے والے پوچھا کیے اس سادگی و پرکاری کا آخر ذمہ دار ہے کون؟چیئرمین واپڈا کا بھاری بھر کم عہدہ کس لیے؟ اس کی ذمہ داری ہے کیا؟ وہ کیوں بل وصولی میں ناکام و نامراد ہے؟کیا وہ اپنے شہریوں کی گردنیں ماپنے کے لیے ہے؟ یار لوگ مبالغہ و تعلیٰ کرتے ہوئے کشمیر کو جنت کہتے ہیں۔پاکستانی عوام اس جنت کا کیا کریں جس نے انہیں جیتے جی جہنم میں جھونک دیا۔ کوئٹہ اور فاٹا کے 29 ہزار ٹیوب ویل آخر کس خوشی میں بل نہیں دیتے؟ یہاں وصولی میں ناکامی کا ذمہ دار کون؟ بات گھوم پھر کر پھر چیئرمین واپڈا کے رخ روشن کی طرف آتی ہے۔ کپتان اپنی مستی میں مگن ہے اور واپڈ ا کا ٹائی ٹینک ڈوبنے چلا ہے۔ شاید انہیں خوش گمانی ہو کہ واپڈا کا جہاز ڈوبا تو یہ بچ رہیں گے۔ نہیں حضور زمانہ آگے بڑھ گیا،مہنگی بجلی سے تنگ آئے عوام آج نہیں تو کل ذمہ داروں کو ڈبو دیں گے۔
واپڈا کے 10 فیصد تکنیکی نقصانات ہیں،آئی پی پیز سے کیپسٹی یونٹ لینے کا لطیفہ الگ ٹھہرا۔مسئلہ محض واپڈ املازمین کے مفت یونٹ کا نہیں۔ریاست کے وسائل پر قابض دو اداروں کے ملازمین کو مفت بجلی کا اصل قضیہ کبریٰ ہے۔ ان دو اداروں کی مفت بجلی پر کوئی بات نہیں کرتا کہ وہاں زبان کٹتی ہے۔ کوہ قاف کے دیس میں جنوں اور جادوگروں کی من مانیوں اورعیاشیوں پر آخر بات بھی کون کرے۔مفت بجلی، مفت گیس، مفت رہائش، مفت پٹرول، مفت علاج اور جانے کیا کیا مفت۔۔۔۔یہ فہرست بڑی طویل رہی۔اس فہرست کے سمٹ جانے تک یہاں بجلی مہنگی اور زندگی سستی رہے گی۔ 90 کے عشرے میں بے تحاشا آبادی بڑھی تو بجلی کی قلت ہوئی۔تب انڈی پینڈیٹ پاور پلانٹس (آئی پی پیز)کی اصطلاح سنائی دی اور اس کے بعد لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہوئی۔ بجلی استعمال ہو نہ ہو، سرکار کو ان نجی کمپنیوں کو غیر استعمال شدہ بجلی کے بھی پیسے دینا پڑتے ہیں۔ اس گورکھ دھندے اور گھن چکر سے گردشی قرضے کے اژدھا نے جنم لیا۔ ترسیل کے دوران جو بجلی ضائع ہوتی، واپڈ ا نے اسے لائن لاسز کا نام دیکر اس کا بوجھ بھی عوام کے ناتواں و نحیف کندھوں پر ڈال رکھا ہے۔لائن لاسز میں کرپشن کی کہانی الگ رہی، واپڈ کے تمام چیئرمین جانتے بوجھتے ہوئے بھی چین سے سوتے رہے۔ یوں عوام کے گرد شکنجہ سخت ہوتا گیا اور واپڈ ا ملازمین کو بھی لطف لینے کی عادت پڑ گئی۔ لائن لاسز کے عفریت کے بعد بجلی چوری کا دیو بھی عوام کو مسلسل نگل رہا ہے اور واپڈ ا کے تمام ذمہ دارخا موش تماشائی ہیں۔ آئی پی پیز سے معاہدے اگر ڈالر کے بجائے ملکی کرنسی میں ہوتے تو بجلی اتنی مہنگی نہ ہوتی۔ 1994 میں کیے گئے یہ معاہدے 2027 میں ختم ہونگے۔
پاکستان میں جب خوشحالی اور خوش قسمتی بانٹی گئی ہونگی تب بے حسی اور خود غرضی نے دوہرا حصہ پایا ہو گا۔جسے اس بات کی صداقت میں شک یا تامل و تردد ہووہ ذرا واپڈ ا کے معاملات پر نگاہ ڈالے۔ سالانہ 380 ارب روپے کی بجلی چوری کا بوجھ تو عوام کے کمزور کندھے اٹھاتے ہی ہیں لیکن وفاقی حکومت بھی900 ارب روپے سبسڈی چوری، کم ادائیگی اور لائن لاسز کے نام پر پاور سیکٹر کے اندھے اور گہرے کنویں میں ڈالا کیے۔ پاکستان میں فی یونٹ بجلی 53 روپے سے بھی بڑھ چکی جبکہ بھارت میں فی یونٹ 14 سے 15روپے کا ٹھہرا۔ مچھلی اور چاول کھانے والے بنگالیوں کی بات بہت سو ں کو بری لگے تو لگے لیکن وہاں بھی یونٹ 18 روپے کا رہا۔تسلیم کہ ہماری کرنسی دونوں ممالک کے مقابل قدر کھو چکی لیکن اس کا ذمہ دار کون؟(ذہن میں رہے یہ تقابل پاکستانی کرنسی میں ہے ورنہ بھارت میں بجلی کا یونٹ 3 سے 5 روپے اور بنگلہ دیش میں 7ٹکے کا ہے) بتایئے صاحب ہم کس کی بلائیں لیں،کس کے صدقے واری جائیں۔ جائیں تو کہاں جائیں کہ اسلام کے نام پر بنائے گئے قلعے میں بجلی انسانی زندگی سے بھی مہنگی ہو چکی۔بس اب زندگی ہی سستی ہے ورنہ باقی ہرشے مہنگی ہے۔ بقول سعادت حسن منٹو بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے حکومت اور رعایا کا رشتہ روٹھے ہوئے خاوند اور بیوی کا رشتہ ہے۔ حقیقی حکمرانوں کو کون بتائے کہ اب عوام روٹھے ہی نہیں تپے ہوئے ہیں اور بری طرح تپے ہوئے ہیں۔ کوئی دن آتا ہے ان کا غصہ تخصیص، تفریق اور تقسیم برابر کر دے گا۔
ہر چیئرمین واپڈ ا بڑا سیانا اور پرلے درجے کا بے حس ہوتا ہے کہ وہ ظالم جانتا ہے بجلی جتنی بھی مہنگی ہو اسے کوئی نہ پوچھے گا اور گالیاں جمہوری حکومت کو پڑیں گی۔نیپرا بھی نرخوں کے تعین میں ستم پرور ہے کہ ظالم ستم ایجاد سے کم کہلانے پر راضی نہیں ہوتا۔ اندازہ کریں بجلی کے بلوں میں 19اقسام کے ٹیکس بلکہ لگان لگایا جاتا ہے۔ نیپرا کی کہانی بھی دلچسپ ہے اور لذیذ بھی، اس لیے ذرا درا ز کہے جانے کے قابل ہے سو یہ آئندہ سہی۔واپڈ ا کا موجودہ ڈھانچہ، سرکاری ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی، چیئرمین واپڈ ا کا عوام دشمن عہدہ، تقسیم کا ر کمپنیاں، بجلی چوری، آئی پی پیز کا طریقہ کار، تیل چوری، بجلی کی پیداوار، ترسیل، میٹر ریڈنگ اور سیکرٹری پاور…… یہ سب ایک طلسم ہو شربا کہانی ہے اور سب کے تانے بانے ملے ہوئے ہیں۔ ٹچ بٹنوں کی یہ جوڑیاں جب تک زبردستی جد ا نہیں کی جاتیں تب تک مہنگی بجلی میں کوئی جوہری کمی ممکن نہیں۔ یہ سب کے سب مل جل کرعوام کا لہو پینے میں جتے ہوئے ہیں اور عوام جب تک اٹھ کھڑے نہیں ہوتے ان کا خون نچوڑا جاتا رہے گا۔ سانپ اور پاکستانی واپڈا میں شاید اب کوئی فرق اور انتہا نہیں رہی۔ ہاں البتہ تھوڑا سا فرق باقی اور برقرار ہے کہ کچھ سانپ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کم زہریلے ہوتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.