بل، بے بسی، نگران، بحران

63

پاکستان میں پہلی دفعہ ہونے جا رہا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے ملک پر مسلط حکمران طبقے کے خلاف براہ راست نفرت اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ورنہ اب تک یہ ہوتا آیا تھا کہ کسی مخصوص پارٹی کے لوگ کسی دوسری پارٹی کے حکومتی عہدیداروں کے خلاف سڑکوں پر آتے تھے۔ آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے شور میں کسی کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ اقتدار پر بظاہر جو بھی آیا یا جو بھی گیا اس سے ملک اور عوام کی تقدیر نہیں بدلنے والی۔ اصلی حکمران کوئی اور ہے اور وہ ہمیشہ مسلط رہے گا۔ عوام ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہیں گے۔ کبھی ایک دوسرے کے لیڈرز کو چور ڈاکو کہتے رہیں گے تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کو بُرا بھلا کہیں گے لیکن حکمران آرام سے پیچھے بیٹھے ڈوریاں ہلا ہلا کے حکومت کرتے رہیں گے۔
بجلی کے بلوں نے غریب عوام کے بچے کھچے کس بل بھی نکال کے رکھ دیے ہیں۔ ایک طرف سے پیٹرول کا پتھر اور دوسری طرف سے بجلی اور گیس کے بلوں کا پتھر۔ غریب عوام کی یہ حالت کم از کم میری ساٹھ سالہ زندگی میں تو دیکھنے میں نہیں آئی۔ آج تک اللہ کی آس پر چلنے والا ملک لگتا ہے اس آس کا سہارا بھی کھو بیٹھا ہے۔ کہیں سننے میں آ رہا ہے آمدن بیس ہزار بل چالیس ہزار، کہیں سننے میں آ رہا ہے کہ کسی نے پچھلے ماہ ادھار پکڑ کر بل ادا کیا اس دفعہ اس سے بھی زیادہ آ گیا تو اتنے بچوں کے باپ نے موت کو گلے لگا لیا۔ کرائے کے گھر، بچوں کی فیسیں، آنے جانے کا پیٹرول، روٹی کا خرچہ سب ایک طرف اور بجلی کے بل ایک طرف۔ روپے کی قیمت میں مسلسل گراوٹ اور اشیا کی قیمتوں میں اضافہ الگ سے جان لیوا ہوتا جا رہا ہے۔ یوں لگ رہا جیسے کوئی دیدہ دانستہ بلی کو اس قدر مارے جا رہا ہے کہ وہ جب تک شیر بن کر مارنے والے پر جھپٹ نہیں پڑے گی اس کی جان نہیں بچے گی۔ ایک درد مند پاکستانی سفید پوش دانشور سے اس موضوع پر بات ہوئی تو کہنے لگے۔۔۔۔بجلی کا یونٹ زیادہ سے زیادہ 8 روپے کا ہونا چاہیے۔ جب کہ 60 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے۔ یہ پالیسی ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے نہیں بلکہ عوام کو ڈیفالٹ کرنے اور پسپا کرنے کے لیے ہے۔ جہاں بجلی کا یونٹ اور پیٹرول اس نہج پر پہنچ جائیں وہاں کاروبار تو ایک طرف زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جس ملک میں تعلیم کاروبار اور علاج معالجہ بیوپار بن گیا ہو وہاں کسی بھی طرح کی ترقی ممکن نہیں۔ 8 ہزار ارب ڈالر کے تانبے کے ذخائر، قدرتی اور معدنیات کے وسائل رکھنے والا ملک بھکاری بن گیا ہے۔۔۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ بجلی اور پیٹرول کی غیر حقیقی قیمتوں اور ان پر ٹیکس فراڈ حملے سے عوام سے انتقام لینا اور اسے سیاسی طور پر مفلوج بنانا مقصود ہے۔ اس سے پہلے ماضی قریب کے سیاسی بحران سے ایک خاص سیاسی بلکہ اکثریتی سیاسی پارٹی کے لوگوں کا وطن کے حوالے سے نظریہ اور سوچ واضح طور پر بدلا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہر بحران کے ملبے کو پہلے سے مرتے سسکتے عوام کے کندھوں پر ڈالنے کے علاوہ کسی کے پاس کوئی سوچ ہے نہ نیت۔ یعنی باقاعدہ یہ محسوس ہو رہا ہے کہ عوام کو پوری بیدردی سے کچلا جا رہا ہے۔ پہلے ہم صرف سنتے تھے کہ ہمارے ملک کا کوئی والی وارث نہیں۔ آج یہ لاوارث پن اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حکمران طبقے کی بد نیتی پہلے کبھی اتنی شدت سے بے نقاب نہیں ہوا کرتی تھی جتنی شدت سے آج ہو رہی ہے۔ آپ لاکھ کہتے رہیں عمران خان نے یہ کیا وہ کیا لیکن لوگوں کو جو کچھ عمران کے بعد نظر آیا ہے اس کو جھٹلانے کا ہر حربہ ناکام جا رہا ہے۔ سرمایہ دار طبقے کے پاس عوام کو مسلسل پسنے کے باوجود انقلاب کے راستے سے روکے رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ عمران خان تھا آج وہ نہیں رہا تو اب یہ بے لگام ہجوم کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ اگرچہ اس کی پیش بندی کے لیے جماعت اسلامی کو میدان میں اتارا گیا ہے لیکن اس جماعت کو کبھی عوامی مقبولیت حاصل نہیں رہی اور اس کا تاثر ہمیشہ سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرولڈ گروپ کا رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ روز سسکتے بلکتے عوام جماعت اسلامی کے جھانسے میں آئیں گے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں انصاف کا نظام اگر کہیں ہے بھی تو نظر نہیں آ رہا۔ ریاست اور آئین کسی شکل میں اگر موجود ہیں بھی تو کسی کو دکھائی نہیں دے رہے۔ ہر بندہ بے یقینی کا شکار ہی نہیں بلکہ مریض ہو چکا ہے۔ مجھے کبھی کبھی لگنے لگتا ہے کہ یہ سارا کچھ کوئی بڑا سوچا سمجھا اور مضبوط پلان ہے پاکستان پر چھہتر سال سے مسلط اشرافیہ کو مکمل طور پر بے نقاب کر کے عوام کے ہاتھوں ذلیل کرانے کا۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ جب پوری دنیا میں راج ہی اسی طبقے کا ہے تو اس کے خلاف منصوبہ کون بنا سکتا ہے۔ کبھی سوچتا ہوں ہو سکتا ہے یہ منصوبہ نظام فطرت نے اصول ِمکافات ِعمل کے تحت خود ہی بنا لیا ہو۔ پاکستان کے عوام اس وقت ایک سوچ میں گم ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا، ملک کا کیا بنے گا۔ پوری قوم اس بات پر بھی متفق ہے کہ ملک پر ایسے لوگوں کی گرفت ہے جن کا ہمارے دکھ، درد اور جینے مرنے سے کوئی تعلق نہیں۔ بجلی کے قاتل بلوں نے جس طرح غریب کو اس کے گھروں میں گھس کر مارنا شروع کر دیا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ آگے کچھ بھی اچھا ہونے والا نہیں۔ نگران وزیر اعظم نے اپنے سمیت تمام بے اختیار لوگوں کو بلا بھیجا ہے اور پوچھا ہے کہ اب کیا کریں۔ جبکہ ان سب کو پتہ کہ یہ بیچارے کچھ بھی کرنے یا کہنے کی پوزیشن میں ہی نہیں۔ اب تھرڈ پارٹی کے پاس جائیں گے اور دست بستہ گزارش کریں گے کہ حضور پوچھ کر بتا دیجئے کہ ہمیں اس سلسلے میں کیا کرنا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے اقتدار کا جن ہماری نگران حکومت کی بے بسی پر خوب مسکرا رہا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.