ملکی حالات پھر انتہائی تیزی سے غیر یقینی صورتحال کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ نگرانوں کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے حلف اٹھانے اور کابینہ تشکیل دینے کے بعد انکشافات کا سیزن شروع ہو گیا ہے۔ ہواؤں کا رخ بدل گیا۔ ایک طرف پی ٹی آئی کے قائد اٹک جیل میں مشکلات کا شکار ہیں، بیرک نمبر 3 قیدی نمبر 804 سنسان راہداریوں سے خوفزدہ ہیں۔ خان کی شکل تبدیل ہو گئی، ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ان کی داڑھی بڑھ گئی ہے۔ ان کو آئینہ فراہم کر دیا گیا ہے۔ آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ ”صاحب کو اپنے حسن پر کتنا غرور تھا“ شنید ہے کہ خان آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ وہی چہرہ ہے جسے آئینہ میں دیکھ کر خود ہی چوم لیا کرتے تھے۔ ”دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے“ وقت گزر گیا۔ جنہوں نے دیکھا وہ پہچان نہ پائے۔ سزا معطلی کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ پلان بی کے تحت سپریم کورٹ میں بھی لیگل ٹیم کے 15 وکلا کی جانب سے ایک اور درخواست دائر کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ سزا معطل ہو بھی گئی تو سائفر کیس یا القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری ڈال دی جائے گی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صدر مملکت آرٹیکل 45 کے تحت سزا معافی کی سمری پر دستخط کر دیں جس کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ بریت میں دیر لگے گی۔ سائفر کیس میں تیزی سے پیشرفت ہو رہی ہے۔ سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے پوچھ گچھ کے بعد ایف آئی اے نے جیل میں خان سے بھی سخت سوالات کیے، اسی دوران یہ خبریں بھی سوشل میڈیا پر گشت کرتی رہیں کہ خان کو سیف ایگزٹ دینے کے لیے این آر او مانگ لیا گیا ہے۔ خان نے خود بھی مبینہ طور پر بیرون ملک جانے پر آمادگی ظاہر کی ہے یہ بھی کہا گیا کہ بیرون ملک سے گارنٹی بھی دے دی گئی۔ جمائما بھی سرگرم ہو گئیں۔ کہا گیا کہ ڈیل فائنل ہو گئی جہاز تیار تھا مگر بیرونی ممالک نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ”ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں“ انقلاب اور آزادی اندھیروں میں گم ہو گئی این آر او برآمد ہو گیا۔ دوسری طرف ن لیگ اور پی پی کی بند فائلیں کھلنے لگی ہیں اس خدشہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ 16 ستمبر سے پہلے کئی کیسز کھلنے اور فیصلوں سے دونوں جماعتوں کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں خاصا کہرام مچے گا۔ آئندہ ایک ماہ کے دوران کم و بیش 17 مقدمات کے فیصلوں کے نتیجہ میں عدم استحکام بڑھے گا۔ صدر نے 13 بل دستخط کیے بغیر واپس کر دیے۔ ان کی دوبارہ منظوری دینے والی قومی اسمبلی ہی تحلیل ہو گئی۔ گویا ”وہ شاخ ہی نہ رہی جس پر آشیانہ تھا“ مریم نواز کی 4 سال پرانے مقدمہ میں ضمانت منسوخی کی درخواست کی سماعت شروع ہو گئی۔ وہ جیل جائیں گی یا لندن فیصلہ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد ہو گا۔ رانا ثنا اللہ کے خلاف کیس بھی کھول دیا گیا۔ ”ابھی تو اور کھیلیں گے ابھی کھیلا کیا ہے“ سہولت کار ایڈونچر ازم پر اتر آئے ہیں۔ آپریشن کلین اپ کی خبریں بھی سننے میں آ رہی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے انتخابات نہ کرانے پر شہباز شریف اور دیگر سابق وزراء کو توہین عدالت کے نوٹس دیے جا سکتے ہیں بہت کچھ ہو سکتا ہے بہت کچھ ہو گا۔ سیاسی منظر نامے کے آئندہ 30 اہم دنوں میں کئی کہانیاں منظر عام پر آئیں گی۔ خان کے بھانجے حسان نیازی کو طویل روپوشی کے بعد ایک ادارے کے افسر کی مخبری پر ایبٹ آباد سے گرفتار کر کے فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ با خبر ذرائع کے مطابق ان کے خلاف تحقیقات اور ٹرائل فوج ہی کرے گی۔ والد محترم کو رنجیدہ خاطر ہونا بھی چاہیے لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ بیرسٹر بیٹے کو کیا ہوا لمحہ فکریہ ہے۔ نواز شریف کی واپسی کا بگل بج گیا کہا گیا کہ 14 ستمبر کی ریزرویشن ہو گئی لیکن ”ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق“ موجودہ حالات میں آمد موخر بھی ہو سکتی ہے۔
پوری قوم نے 14 اگست بھرپور جوش و خروش سے منایا۔ ملی جذبہ سے قومی پرچم لہرائے گئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کاکول ملٹری اکیڈمی میں نصف شب میں تقریبات کا افتتاح کیا۔ پریڈ کی سلامی کے بعد خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اندرونی اور بیرونی دہشت گردوں اور ملک کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ یوم آزادی کے موقع پر پی ٹی آئی کی جانب سے یوم سیاہ منانے کا پلان بھی پکڑا گیا۔ پی ٹی آئی کے کارکن اس روز قومی پرچم کے بجائے پارٹی کے جھنڈے لے کر نکلے۔ اسلام آباد کے ایکسپریس وے پر ان کی تعداد ایک درجن سے زیادہ نہیں تھی اور وہ بھی گرفتاری کے ڈر سے فاصلے فاصلے سے موٹر سائیکلوں پر باجے بجاتے تیزی سے گزر رہے تھے۔ اسی روز پشاور سے کچھ دور دو ڈھائی سو کارکنوں نے سیاہ پرچم لہرائے اور دیوانہ وار رقص کیا۔ کراچی، پشاور اور لاہور میں پانچ دس کارکنوں کی پولیس نے پٹائی بھی کی۔
اہم سوال الیکشن کب ہوں گے؟ چیف الیکشن کمشنر سے استفسار کیا گیا انہوں نے کندھے اچکا دیے۔ بعد ازاں گزشتہ بدھ کو انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے دو گھنٹے ملاقات کی، یہ ملاقات سپریم کورٹ بار اور پی ٹی آئی کی جانب سے 90 روز میں انتخابات کرانے سے متعلق درخواستیں دائر کرنے کے بعد کی گئی۔ ملاقات میں کیا امور زیر بحث آئے اس بارے میں کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم باور کیا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو درپیش مسائل پر بات چیت کی گئی۔ تاریخ کے بارے میں بھی استفسار کیا گیا ہو گا۔ پی ٹی آئی کے علاوہ پیپلز پارٹی کے بعض لیڈروں نے بھی الیکشن 90 روز میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے البتہ اس ملاقات کے بعد کہا کہ انتخابات 90 دنوں میں نہیں ہو سکتے۔ حلقہ بندیاں 8 ستمبر سے شروع ہو کر 14 دسمبر تک مکمل ہوں گی۔ اس سلسلہ میں نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد شاہ محمود قریشی نے ایک خط نگران وزیر اعظم کو لکھ بھیجا۔ جس میں انہیں عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے الیکشن 90 روز میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ خط میں نگراں حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ اللہ کی شان، پی ٹی آئی اور کسی حکومت سے تعاون، کیا خان سے پوچھ لیا؟ مگر نگراں کابینہ میں جو وزراء شامل کیے گئے ہیں ان سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے چہرے خوشیوں سے محروم رہیں گے۔ سیانے کہتے ہیں کہ خان نے اپنے دور میں کانٹوں کے جو بیج بوئے تھے وہ فصل انہیں کاٹنا پڑے گی۔ تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ الیکشن فروری کے پہلے یا دوسرے تیسرے ہفتے میں ہوں گے۔ نہ ہوئے تو میں ذمہ دار ہوں گا۔ پوچھا گیا فیصلہ کس نے کیا؟ بولے ہمارے بڑوں نے، بڑے کون ہیں؟ جواب ملا سیاسی جماعتوں کے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن فروری 2024ء سے آگے نہیں جائیں گے۔ جیب سے پرچی نکال کر شہباز شریف کو حیران کرنے اور ان سے پانچ منٹ میں نگراں وزیر اعظم کے نام کی منظوری لینے والے راجہ ریاض نے بڑے پُر اعتماد لہجہ میں یہ پیشگوئی بھی کی کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی ہو گی نہ بلے کا انتخابی نشان، ان کے مطابق خان جیل میں ہوں گے اور پی ٹی آئی پر پابندی لگ جائے گی۔ اس سلسلہ میں با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو باہر رکھنے کے لیے راجہ ریاض کے ”بڑوں“ نے سہ جہتی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جو 1990، 1997 اور 2002 میں اپنائی گئی تھی۔ اس کے تحت پہلے پی پی پھر ن لیگ اور آخر میں دونوں پارٹیوں کو سیاسی منظر سے ہٹا دیا گیا۔ حالیہ حکمت عملی کے تحت کئی حلقوں میں ون آن ون مقابلہ ہو گا۔ الیکٹیبلز کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے کارکن بلے کا نشان ڈھونڈتے پھریں گے۔ مخلوط حکومت جمہوریت کا پرچم بلند کرے گی۔ سابق وزیر اعظم شہباز شریف کو جس عزت و احترام سے رخصت کیا گیا اگر وہ توہین عدالت کی تلوار سے محفوظ رہے تو وزارت عظمیٰ کے لیے فیورٹ ہوں گے۔ بڑوں کے فیصلوں میں کسی کا کیا دخل، جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے ان کی واپسی کے بارے میں رانا ثنا اللہ کا دعویٰ ہے ہمیں گارنٹی مل چکی ہے کہ ہمارے قائد کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ حالانکہ خود ن لیگ کے قانون پسند رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر ان کی ضمانت نہ ہوئی تو انہیں وقتی طور پر سہی جیل جانا پڑے گا۔ تاہم انہیں اٹک جیل نہیں اڈیالہ جیل یا کسی اور جگہ رکھا جائے گا۔ ان کی نا اہلی ختم ہو چکی سزائیں کالعدم قرار دے دی گئیں تو وہ الیکشن میں حصہ لیں گے اور چوتھی بار وزیر اعظم کا منصب سنبھالیں گے۔ آئندہ چند روز میں حالات کیا ہوں گے؟ اس کا انحصار الیکشن کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ہو گا۔ تاہم قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان چیف الیکشن کمشنر کے بجائے اب صدر مملکت کریں گے۔ حلقہ بندیوں کے بعد بھی نشستوں میں رد و بدل نہیں کیا جا سکے گا۔ ایڈونچرازم کے باوجود نگرانوں کے نگران وزیر اعظم نے یہ کہہ کر اپنا ایجنڈا واضح کر دیا ہے کہ رول آف آرڈر کے بغیر رول آف لا نہیں ہو سکتا۔ 9 مئی کے سانحہ میں ملوث کسی شخص کو رعایت نہیں ملے گی یاد رہے کہ اس ایجنڈے میں معیشت کی بحالی بھی شامل ہے، بڑوں کا یہی فیصلہ ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.