آزادی یا ذہنی غلامی

124

گزشتہ روز وطن عزیز پاکستان کا 77 واں یوم آزادی تھااور قوم نے بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ منایا اور اس جوش و جذبے کا اظہار کرنے والوں میں کثیر تعداد ان لوگوں کی تھی جن کو یہ بھی صحیح سے معلوم نہیں تھا کہ قیام پاکستان کا اصل مقصد کیا تھا ان کو یہ معلوم تھا کہ کس طرح ناچ ناچ کر سڑکوں کو بلاک کرنا ہے اور اور باجا بجا کر صوتی آلودگی پھیلانی ہے مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ اس آزادی کے پیچھے کتنی جدوجہد کی گئی ان کو یہ معلوم تھا کہ ہوائی فائرنگ کے ذریعے لوگوں کی زندگی خطرے میں ڈال کر وہ دنیا کو یہ بتا سکتے ہیں کہ انہیں اپنی آزادی کی کتنی خوشی ہے مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ اس آزادی کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ وہ جانی تحفظ جو کہ برصغیر میں مسلمانوں کو یا اقلیتوں کو حاصل نہیں تھا وہ پاکستان میں ان کو حاصل ہو سکے ایسا نہیں تھا کہ قیام پاکستان کے مقصد کو جاننے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ بعض تنظیموں نے سیمینار وغیرہ کا بھی اہتمام کیا تھا جن میں قیام پاکستان کے مقاصد کو بیان کیا گیا مگر ایسے پروگراموں کی تعداد بہت کم تھی اور ان پروگراموں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد تو اس سے بھی کم تھی اور سڑکوں پر نکل کر شور شرابہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی جو کہ قیام پاکستان کے مقاصد سے سرے سے واقفیت ہی نہیں رکھتے تھے بدقسمتی تو یہی ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ نہیں کر سکے ہمارے نوجوان یہ تو جانتے ہیں کہ 14 اگست پاکستان کا یوم آزادی ہے مگر اس آزادی کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے جو جدوجہد کی اس کو بھلائے بیٹھے ہیں 14 اگست 1947 کو ہونے والے اعلان یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے آپ کو پاکستان مبارک ہو کے بعد ہر اس انسان کی خوشی کا کوئی عالم نہ تھا کہ جس نے یہ آزادی حاصل کرنے کے لیے نجانے کتنی قربانیاں دیں اور جس نے نجانے کتنی راتیں جاگ کر اس آزادی کی جدوجہد کو کامیاب بنایا اور اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک اور آزادی کو حاصل کرنے کے لیے نجانے ظلم و زیادتی اور غلامی کے کتنے ہی کٹھن لمحات میں صبر کیا ہمارے آباؤ اجداد نے اس جسمانی غلامی کی بجائے آزادی کو فوقیت دی اور ان کا ماننا تھا کہ اس آزادی کی بدولت وہ دنیا میں اپنا الگ مقام حاصل کر لیں گے مگر آج کے حالات دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم جسمانی غلامی سے ذہنی غلامی تک کا سفر بڑی آسانی سے طے کر چکے ہیں ہمارے آباؤ اجداد آزادی حاصل کرنے سے پہلے کم از کم ذہنی طور پر تو آزاد تھے مگر آج کا پاکستانی اس سے محروم ہو چکا ہے ہم ذہنی طور پر اس قدر غلام بن چکے ہیں کہ نام نہاد ٹرینڈز پر عمل کرنے کے چکر میں ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ہمارے نوجوان جو کہ آبادی کا 69 فیصد ہیں وہ اس قدر گمراہ ہو چکے ہیں کہ ان کو تو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کون تھے ان کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ جن قوموں کے وہ ذہنی غلام بن چکے ہیں وہ تو ان کے آباؤ اجداد کے نام سے بھی کانپتی تھیں وہ مائیں بیٹیاں کہ جن کی عزت کی حفاظت کرنے کے لیے ہمارے بزرگ سولی پر چڑھنے کو بھی تیار تھے وہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ناچتی اور خودکی نمائش کرتی نظر آتی ہیں پاکستانی نوجوان جو کہ اس ملک کا مستقبل ہیں ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ 14 اگست تو وہ سحر ہے کہ جس کی تلاش میں نجانے کتنے ستارے ڈوب گئے سڑکوں پر ون ویلنگ کرنے والے،ناچ ناچ کے راستے بلاک کرنے والے اور گلیوں میں باجا بجا کر صوتی آلودگی پھیلانے والے نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آزادی کی پہلی صبح کیسی تھی اور ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ جشن آزادی منانے کا اصل مقصد کیا ہے اور ہمارا جشن آزادی منانے کا اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم نے اس ذہنی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے ہم نے ہر وہ کام کرنا ہے کہ جس کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے دن رات محنت کی تھی کہ جس کے لیے ان کے نجانے کتنے آنسو بے مول ہو گئے تھے اور جس کے لیے خون اور پسینہ بہایا گیا تھا۔

تبصرے بند ہیں.