ایک دن کے لیے راولپنڈی اسلام آباد گیا اور واپس لاہور آ گیا۔ بہت سے لوگوں سے ملنا تھا لیکن سب سے ملاقات نہ ہو سکی۔ چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد پشاور تھے۔ معروف صحافی افضل بٹ کی والدہ کی تعزیت کے لیے حاضر ہونا تھا پتہ چلا کہ وہ مظفرآباد گئے ہیں۔ روزنامہ جموں کشمیر کے چیف ایڈیٹر عامر محبوب میرپور تھے۔ تاہم اس دورے میں دیگر بہت سے اہم دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔
پہلا پڑاؤ پیر مہر علی شاہ یونیورسٹی تھی۔ فیض آباد سکائی ویز کے اڈے کے بالکل قریب یہ چھوٹی سی یونیورسٹی ملک بھر کے طالب علموں کے لیے تعلیم کے دروازے وا کیے ہوئے ہیں تاہم جب سیاسی خلفشار ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں اسلام آباد کی طرف رخ کرتی ہے تو یہاں کے بچوں کی تعلیم کا سب سے زیادہ حرج ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دیتی ہیں تو انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے کسی عمل سے یونیورسٹیوں میں تعلیم کا نظام خراب نہ ہو۔ اس یونیورسٹی میں ایک باغ و بہار شخصیت پروفیسر ڈاکٹر عرفان یوسف سے ملاقات ہوئی۔ گرچہ یہ پہلی ملاقات تھی لیکن لگ رہا تھا کہ ہم دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ یونیورسٹی کی بجلی خراب تھی، پتہ چلا کہ کل سے یہ سلسلہ چل رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہم گھنٹوں ان کے دفتر میں بیٹھے رہے، ان کی شگفتہ بیانی کی وجہ سے وقت گذرنے کا احساس تک نہیں ہوا۔ عام طور پر سائینس کے پروفیسر خشک مزاج ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر عرفان یوسف صاحب سماجیات کے بھی استاد نظر آئے۔ آپ فیکلٹی آف کلینیکل سائنس، فیکلٹی آف اینمل سائنسز کے سربراہ ہیں۔ ویٹرنری کلینیکل اینڈ ویٹرنری سائنسز میں پی ایچ ڈی ہیں اور طول عرصہ سے شعبہ تدریس سے منسلک ہیں۔ نئے کلچر اور نئے لوگوں سے ملاقات کے حوالے سے انہوں نے اپنے تجربات شیئر کیے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہماری فیکلٹی میں کے پی اور سندھ سے بھی لوگ ہیں۔ اسی طرح پورے پاکستان سے بچے یونیورسٹیوں میں پڑھنے آتے ہیں ان کے پاس موقع ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا کلچر سیکھیں ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں اس سے قومی یک جہتی بڑھے گی۔ میں نے انہیں اپنے رسرچ پروجیکٹ کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح سماج میں کمیونیکیشن گیپ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ طبقات میں موجود خلیج کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ ایک عرصہ کے بعد کسی ملاقات میں سیاست پر گفتگو نہیں ہوئی۔ عام طور یہ ہوتا ہے کہ محفل جمتی ہے تو سب سے اہم موضوع سیاست ہوتا ہے اور ان حالات میں جب سیاسی میں گرما گرمی عروج پر ہو۔ ویٹرنری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس فیلڈ میں گریجوایٹ ہونے والے بچے پاکستان میں نہیں ٹک رہے وہ دنیا بھر میں جا کر کام کر رہے ہیں کیونکہ انہیں اپنا مستقبل وہاں نظر آ رہا ہے یہاں ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی ہماری حکومتوں نے ان کی صلاحیت اور تجربے سے فایدہ اٹھانے کی کوئی سنجیدہ
کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی ریسرچ لیبارٹریز میں پاکستان اور بھارت کے لوگ کام کر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں سستی لیبر مل رہی ہے دوسرا وہاں کے لوگ اتنی لمبی ڈگریاں نہیں کرتے۔ تین سال یونیورسٹی میں لگائے اور کمانے پر جت گئے۔ بارانی یونیورسٹی چونکہ بنیادی طور پر زراعت کی یونیورسٹی ہے اس لیے ویٹرنری کے شعبہ میں اس کے پاس اتنے زیادہ فنڈز نہیں لیکن اس کے باوجود یہ یونیورسٹی بہت اچھے گریجوایٹ پیدا کر رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں یونیورسٹی آف اینمل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے فنڈز بہت زیادہ ہے اس لیے وہاں اس شعبے میں زیادہ کام ہو رہا ہے۔
اسلام آباد کی اس یاترا میں جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر محمد مشتاق خان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کا صدر بننے پر مبارکباد دی۔ اس ملاقات میں سردار جاوید اقبال اور راجہ ذاکر خان بھی موجود تھے۔ راجہ ذاکر خان ایک عرصہ لاہور رہے۔ پڑھی لکھی شخصیت ہیں اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے شعبہ نشر و اشاعت کی سربراہی ان کے پاس ہے۔ ان سے ایک عرصہ بعد ملاقات ہو رہی تھی ان سے مل کر خوشگواری حیرت ہوئی کہ وہ ابھی تک جوان ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی جوانی کا راز کسی کو نہیں بتاتے۔ اس ملاقات کا احوال اگلے کالم میں لکھوں گا۔
جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ملک میں نگران وزیراعظم کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن صدر عارف علوی نے جاری کر دیا ہے جس کے مطابق بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم بنایا گیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اس نام پر اتفاق رائے ہو گیا۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ نگران وزیراعظم ایک چھوٹے صوبے سے لیا گیا ہے تاہم یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ غیر جانبدار رہ کر اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔ قبل ازیں نگران وزیراعظم کے لیے بہت سے نام گردش کر رہے تھے لیکن کسی جانب سے انوارلحق کاکڑ کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی گزشتہ ہفتے سے کافی ملاقاتیں کر رہے تھے اور انہی ملاقاتوں میں ان کا نام پیش کیا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ بڑے گھر والے بھی اس نام پر متفق تھے۔انوارالحق کاکڑ مارچ 2018 میں آزاد حیثیت سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے، ان کی 6 سالہ مدت مارچ 2024 میں ختم ہوگی۔انہوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز اور ہیومن ریسوس ڈیولپمنٹ کے چیئرمین کے طور پر کام کیا، اس کے علاوہ وہ سینیٹ کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی، فنانس اینڈ ریونیو، خارجہ امور اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے رکن بھی رہے۔انوار الحق کاکڑ نے سینیٹ میں 2018 میں قائم ہونے والی بلوچستان عوامی پارٹی کے لیے پارلیمانی لیڈر کا کردار بھی ادا کیا۔انوار الحق کاکڑ نے 5 سال تک اس پوزیشن پر خدمات انجام دیں، تاہم، پانچ ماہ قبل ان کی جماعت نے نئی قیادت کا انتخاب کرنے کا عزم کیا، جس کے بعد انہیں تبدیل کر دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر بحث چل رہی ہے کہ باپ باپ ہوتا ہے۔
انوار الحق کاکڑ بلوچستان کی سیاست میں پہلی بار 2008 میں منظر عام پر آئے تھے۔ اس سے قبل انوار الحق برطانیہ میں مقیم تھے تاہم 2008 میں بلوچستان کی سیاست میں انٹری کے بعد انہوں نے پہلی بار 2008 میں مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر کوئٹہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تاہم الیکشن ہار گئے اور دوسری پوزیشن پر رہے۔ انہوں نے پرویز مشرف کا اس وقت ساتھ دیا جب بلوچستان آگ میں جل رہا تھا۔ انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا۔انوار الحق کاکڑ سال 2015 سے 2017 تک وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری کے ترجمان تھے۔ سال 2018 کے آغاز میں بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت کے خاتمے کیلئے اٹھنے والی بغاوت میں انوار الحق کاکڑ سرفہرست تھے اور نواب زہری کیخلاف عدم اعتماد میں پیش پیش رہے بعد میں وہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کے ساتھ تھے۔ سال 2018 میں قدوس بزنجو کی آشیرباد سے انوار الحق کاکڑ آزاد حیثیت سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ انور الحق کاکڑ اس وقت جام کمال کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ نے گذشتہ ماہ سینئر نائب صدر مسلم لیگ ن مریم نواز سے جام کمال کے ہمراہ ملاقات کی تھی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.