فوسل فیولز کے صحت انسانی پر تباہ کُن اثرات
تحریر: زینب وحید
"جی، میڈیکل رپورٹ آگئی جس میں آپ کے پھیپڑوں کے سرطان کی تشخیص ہوئی ہے” ڈاکٹر کے یہ الفاظ سنتے ہی حامد کی دنیا اجڑ گئی”۔ ایک خاموش آنسو حامد کے اُداس چہرے پر گرتے ہی ان گنت خدشات، اولاد کی خواہشات اور بے شمار ادھورے خواب پل بھر میں آنکھوں کے سامنے دھندلا گئے۔ اس نے اپنی تمام عمر چکوال میں ایک پہاڑ کی قبر نما 200 فٹ گہری کان سے کوئلہ نکالتے ہوئے گزار دی تھی۔ جہاں وہ اپنے بچوں کے روشن مستقبل کی خاطر محنت مزدوری کرتا ہے۔ تمام عمر زہریلی گیس، مادوں کے اخراج اور آکسیجن کی شدید کمی کے باعث اب زندگی کی امید اُس کے سامنے دھندلا سی گئی تھی۔ اسے حکومت کی جانب سے علاج میں مدد کی امید ہے نہ ہی کوئلے کی کان کے مالک سے کوئی آس۔
حامد پاکستان کی استحصالی فوسل فیول انڈسٹریز کی بے حسی کا شکار لاکھوں کان کنوں میں سے ایک ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح یہ صنعت بھی حفاظتی اقدامات اور انتظامات سے محروم ہے جس کے باعث ورکرز سانس کی بیماریوں، گھنٹوں جھک کر کام کرنے کے باعث ہڈیوں کے چٹخنے اور دیگر طبی مسائل کا شکار ہیں، لیکن یہ خطرناک صورتحال صرف اس صنعت تک محدود نہیں بلکہ دیگر شعبوں میں بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔
فوسل فیول انڈسٹری سے نکلنے والی آلودگی دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا تین چوتھائی حصہ ہے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فضائی آلودگی طرح طرح کی بیماریوں اورقبل ازوقت موت کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے، اسی وجہ سے سالانہ 6.4 ملین افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ زیادہ سنگین امر یہ ہے کہ ان میں سے تقریباً 95 فیصد اموات قطب جنوبی کے غریب ممالک میں ہوتی ہیں جہاں غریب اور بے بس عوام پہلے ہی مسلسل فضائی آلودگی کے نشانے پر ہیں۔ ترقی پذیر ممالک پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس خطے کے شہری شدید ترین آلودگی کی زد میں رہتے ہیں۔ یہی فضائی آلودگی دنیا بھر میں دل اورپھیپھڑوں کی بیماریوں، فالج، نمونیا اور دمہ کے امراض پیدا کر رہی ہے۔
یہ اعدادوشمار دلخراش حقیقت کے عکاس ہیں: زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ معاشرے فیول انڈسٹریز کے تباہ کن اثرات کا زیادہ شکار ہیں جن کا اس صنعت کے پھیلاؤ یا زہریلی گیسوں کے اخراج میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہی "ماحولیاتی نا انصافی” ہے اور اسی لئے یہاں سے جنم لینے والی ماحولیاتی تبدیلی سے صحت پر مرتب ہونے منفی اثرات کا جائزہ لینا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
سیلاب سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان نے غذائی قلت بھی پیدا کی ہے، جس سے پاکستان میں شدید غذائی کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
پاکستان میں 2022 کا تباہ کن سیلاب پوری دنیا کے لئے ماحولیاتی تباہی کے خطرناک اثرات سے نمٹنے کے امکانات کا کیس اسٹڈی بن کر سامنے آیا ہے۔ اس بھیانک موسمیاتی بگاڑ سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں شعبہ صحت میں سنگین بحران پیدا ہو گیا۔ سیلاب سے صحت کے 1400 سے زائد مراکز مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ سیلابی پانی میں گھرے عارضی کیمپس میں رہنے والے پناہ گزین پینے کے صاف پانی سے محروم رہے جس سے پیچس اورہیضہ جیسی وبائی امراض نے علاقے کو لپیٹ میں لے لیا۔ سیلاب گزر گیا مگر اپنے پیچھے تباہی کی داستان چھوڑ گیا اوراس کے ٹھہرا ہوا پانی مچھروں کی افزائش گاہ بن گیا جو ابھی تک ملیریا اور ڈینگی کا باعث بن رہا ہے۔ تباہ کن سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا جس سے پاکستان بھر میں شدید غذائی کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
صحت کے اس بحران کے اثرات البتہ برابر نہیں کیونکہ خواتین اور بچیاں ماحولیاتی بگاڑ سے نسبتا زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ خواتین اور بچیاں موسمیاتی آفت سے مردوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے 2022 کے سیلاب میں ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ حاملہ خواتین طبی سہولیات و ادویات اور لاکھوں بچیاں بنیادی اشیاء سے محروم رہیں۔ عاملہ خواتین کو ڈاکٹر، دائیاں اور ادویات تک دستیاب نہیں تھیں۔ یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ کلائمٹ چینج محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی نا انصافی کا اظہار ہے جو بھوک و افلاس، بیماریوں اور معاشرتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ یہ حالات متقاضی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کسی بھی عزم اور کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے صنفی نقطہ نظر سے بھی جائزہ لیا جائے اور خواتین کی برابر شرکت اور نمائندگی یقینی بنائی جائے۔
خلائی تحقیق کے امریکی ادارے "ناسا” کی تحقیق عندیہ دیتی ہے کہ اگر آئندہ 50 سال میں صاف اور قابل تجدید ایندھن کی جانب منتقلی یقینی بنا لی جائے تو فوسل فیولز سے پیدا ہونے والے کئی چیلنجز پر قابو پا کر تباہ کن خطرات کم کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح قبل از وقت اموات، اسپتال پر مریضوں کا بوجھ، ملازمتوں کا خاتمہ اور فصلوں کی تباہی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
صاف توانائی کے حصول کا خواب شرمندہ تعمیر کرنے اور اس کے نتیجے میں ماحولیاتی انصاف کے حصول میں بنیادی رکاوٹ اشتہاری صنعت میں بے پناہ سرمایہ کاری ہے، تاہم یہ امرنظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ 2009 میں کوپن ہیگن کے بعد سے ہر سال ہونے والی ماحولیاتی کانفرنسز (COPs) میں کلائمٹ فنانس کے جو وعدے کئے جاتے رہے ہیں، اُن کا بنیادی مقصد صاف ایندھن پر منتقلی یقینی بنانا ہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے زیر اثر ضرورت مند ممالک کے ساتھ اس وعدے کا وفا نہ ہونا ایک طرف قطب شمالی کی حکومتوں کی دنیا کو محفوظ اور پائیدار مستقبل دینے میں عدم دلچسپی کا واضح اظہار ہے تو دوسری جانب یہی امیر ممالک قابل تجدید توانائی کی جانب پیش رفت کے بجائے فوسل فیولز کے مزید پروجیکٹس شروع کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال ثبوت ہے کہ کس طرح یہ امیر ممالک فوسل فیول انڈسٹریز کو تحفظ دے کر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جنہیں ماحولیاتی تباہی اور غریب ممالک کی آہ و بکا سے کوئی سروکار نہیں۔ ماحولیاتی بگاڑ کے ذمہ دار یہی کلامٹ کرمنلز ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے تباہ کن اثرات کو دنیا سے پوشیدہ رکھنے کے پروپیگنڈے پر بھی اربوں ڈالر جھونک رہے ہیں۔ یہ ملک ایک طرف کلائمٹ کانفرنسزکے انعقاد کو اسپانسر کر رہے ہیں تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کا عفریت دنیا بھر میں قوموں اورمعیشتوں کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ گلوبل نارتھ حکومتوں کی جانب سے شفاف کلائمٹ فنانسنگ میں عدم دلچسپی اور فوسل فیول انڈسٹریز کے لئے دل میں نرم گوشہ "ماحولیاتی انصاف” کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے قول و فعل میں تضاد ختم کر کے عملی اقدامات کی طرف پیش رفت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث گھر بار چھوڑنے والے پناہ گزینوں کی صحت کے تناظر میں خصوصی توجہ دینے کے لئے ڈاکٹرز اورشعبہ طب سے تعلق رکھنے والے دیگر پروفیشنلز کو ساتھ ملا کر پالیسی سازوں کے ساتھ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنایا جا سکتا ہے۔
ان لمحات میں جب دنیا ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اس نہج پرپہنچ چکی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ ہمیں اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کےلئے فوری اجتماعی اقدامات اور ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کا بھی وقت آگیا ہے۔ دنیا کے لئے فیصلہ کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔
سوال یہ ہے کہ دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی کی تباہی سے بچانے کے لئے ہم انفرادی اور اجتماعی طورپر خود کاوش کرنا ہو گی اور ہمیں بچانے کے لئے کسی اور سیارے سے کوئی مسیحا نہیں اترے گا۔
آج سب کو خود سے سوال کرنا ہے کہ اگر ہم لمحہ موجود میں عملی اقدامات نہیں کریں گے توکب کریں گے؟ کیا ذرا سی بھی تاخیر بہت دیر ہونے کا باعث نہیں بن جائے گی؟
تبصرے بند ہیں.