ہر فرد کے بنیادی حقوق ہیں جن کا تحفظ نہ صرف ریاست کی ذمہ داری ہے بلکہ ان حقوق کو سلب کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ جس طرح بعض چیزیں سدا بہار ہوتی ہیں جو کبھی پرانی نہیں ہوتیں اس طرح پاکستان میں مسائل بھی سدا بہار ہیں جو کبھی پرانے ہوتے ہیں اور نہ ان پر زوال آتا ہے پچھتر سال پہلے جو مسئلہ تھا وہ آج بھی اسی طرح موجود ہے کئی حکومتیں بدلیں جن میں جمہوری بھی تھیں آمرانہ بھی لیکن عوام کے مسائل روز اول سے ویسے کے ویسے ہی ہیں ان میں کوئی تبدیلی کسی تبدیلی سرکار میں بھی نہیں آ سکی بلکہ ان مسائل کی کراہت اور بد بو میں اضافہ ضرور ہوتا گیا۔پاکستان کی جیلیں اور تھانوں میں اگر کچھ بہتری لائی جاتی انسانی تکریم عزت اور اس کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنے پر توجہ دی جاتی قانون سازی کی جاتی تو آج اس ملک میں جرائم میں واضح کمی کے ساتھ ملک میں تحمل برداشت کے رویے ا ور انصاف کا بول بالا ہوتا لیکن شو مئی قسمت اس ضمن میں ہم انگریز دور سے بھی بد تر حالت کا شکار ہیں۔ حالانکہ سویلین حکمرانوں کی اشرافیہ کئی بار تھانوں اور جیلوں کی بربریت کا شکار ہونے کے ساتھ توہین آمیز رویوں سے گزری اور گزر رہی ہے۔مگر جب وہ ریلیکس اور اقتدار میں ہوتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں جیسے ان کے ساتھ کبھی کچھ ہوا ہی نہیں اور نہ آئندہ ہوگا۔ پاکستان کے مسائل میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی بس یہی ایک سچ ہے آپ پچھتر برس پہلے کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو خبروں اور کالموں کے مضمون اور نفس مضمون میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔
بات چلی تھی تھانوں اور جیلوں کی تو عرض کیا گیا تھا کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی فرد ماں کے پیٹ سے مجرم پیدا نہیں ہوتا وقت حالات اور ناقص سسٹم اسے ملزم یا مجرم بننے کی طرف راغب کرتا ہے، اس موضوع پر بہت زیادہ بحث بھی ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی کہ جیلوں میں بند قیدیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں اور انہیں ایک اچھا انسان بنانے کے لئے تمام وسائل اور صلاحیتیں بروئے کار لائی جانا چاہئیں لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں جیل اہلکاروں کی تربیت اس ضمن میں شائد کی ہی نہیں جاتی کہ وہ جیل آنے والے قیدیوں کو انسان کا درجہ دیتے ہوئے ان کا خیال رکھیں یا ان کے اصلاح احوال کے لئے خالص انسانی بنیادوں پر اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاکر انہیں ایک اچھا انسان بننے کا موقع دیں۔انسان مجرم کیوں بنتا ہے اس سوال کا جواب انسانی نفسیات کی گتھیاں سلجھانے والے ماہرین بھی شائد نہیں دے سکے لیکن اس سوال کا جواب ضرور ملنا چاہیے کہ مجرم کو اچھا انسان کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ عمومی طور پر مجرم کے لئے ایک اصطلاح ذہنی یا نفسیاتی مریض کی بھی استعمال کی جاتی ہے جس کا بہر حال علاج کرانا ریاست یا معاشرے کا فرض ہونا چاہیے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی بندہ کسی بھی قسم کے حالات کا شکار ہو کر جیل میں پہنچ جاتا ہے تو جیل کے اندر جاتے ہی اس کے تمام انسانی حقوق سلب کر لئے جاتے ہیں۔ان کے نزدیک وہ اسی بات کا مستحق ہوتا ہے۔ عادی مجرموں اور غلطی سے کسی جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں بھی کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا یہاں تک کے ایسے لوگ جنہوں نے کوئی گناہ یا جرم نہیں کیا ہوتا لیکن ان کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے اور جرم کی نوعیت جو پرچے میں درج ہوتی ہے اسی کے مطابق ان سے سلوک کیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے جیلوں کے اندر قیدیوں کی اصلاح، کردار سازی اورمعاشی بحالی کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔مغربی دنیا میں جیلوں میں جانے والے مجرم جب جیلوں سے باہر آتے ہیں تو ا ن کے رویوں میں ایک مثبت تبدیلی دیکھی جاتی ہے اور وہ ایک بدلے ہوئے انسان اور معاشرے کے فعال شہری ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں تھانوں اور جیلوں کی صورت حال اس سے یکسر مختلف ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جیل میں بند حوالاتیوں اورقیدیوں کو بنیادی انسانی حقوق کمیشن کا جنیوا کارڈ جوسہولیات مہیا کرتا ہے وطن عزیز کی جیلوں میں اس کا پر تو بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔۔بہرحال اکابرین اختیار و اقتدار جیلوں کوعقوبت خانے نہیں بلکہ اصلاح خانے بنانے میں اپنا فعال کردار ادا کریں تو جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں کمی اور معاشرے سے جرائم میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
تعلیم اور ہنر ہی واحد راستہ ہے جو جرائم میں اضافے کو روک سکتا ہے اور سازگار سماج کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتا ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایک مجرم کو بھی وہی سہولیات فراہم کرے جو ایک عام شہری کو میسر ہیں، ان سہولیات میں خاص طور پر صحت اور تعلیم کے مواقع صفِ اول میں شامل ہیں۔یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ جیلوں میں درس و تدریس کا نظام کسی نہ کسی حد تک قائم کیا گیا ہے جس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔جیلوں میں تعلیم دو سطحوں پہ دی جارہی ہے۔ پہلی سطح بالکل ابتدائی ہے یعنی بنیادی اخلاقیات اور دینی قسم کی تعلیم۔جس میں لکھنا پڑھنا بھی شامل ہوتا ہے۔پڑھنے کی مہارت اور لکھنے کا فن سکھایا جاتا ہے۔ دوسرے درجے کی تعلیم میں ڈگری پروگرام ہوتے ہیں۔ جیلوں میں بیٹھے ہزاروں نوجوان اپنی تعلیم مکمل کر لیتے ہیں اور باہر نکل کے باوقار زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔اس سلسلے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا کردار قابل تعریف ہے جس نے جیلوں میں ڈگری پروگرام شروع کر کے جیلوں میں بیٹھے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔
جیلوں میں سب سے بری اور ناگفتہ بہ حالت سزائے موت کی قیدیوں کی ہوتی ہے،ضروری نہیں کہ سزائے موت پانے والا ہر مجرم واقعی گنہگار ہو ہمارے پاس کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بے گناہ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے اور کئی کئی برس وہ جیلوں میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹتے رہے ابھی حال ہی میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی اس امر کی نشاندہی کر کے کچھ اصلاح احوال کرنے کی کوشش کی ہے اور کئی قیدیوں کو رہا کیا ہے ہمارے عدالتی اور تفتیشی نظام کی خامیوں کے تناظر میں ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ جب ایک بار پھانسی دے دی جائے تو پھر اس کی کوئی تلافی نہیں ہو سکتی۔اس سے پہلے کم سے کم اس کے جینے کے حق اور دیگر حقوق تو مہیا کئے جا سکتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی قیدیوں کے اصلاح احوال کے حوالے سے،جیلوں میں بند مجرموں کی ہمارے پاس کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہیں اچھا انسان بننے کا موقع دیا گیا وہ نہ صرف اچھے انسان بنے بلکہ جیلوں میں بند رہ کر بھی خدمت انسانی کا عظیم کام بھی سر انجام دینے لگے۔ جبکہ جیلوں سے باہر آکر بھی انہوں نے اس مشن کو جاری رکھا۔حرف آخر انسان کو اگر اچھا ماحول، تربیت اور مناسب وسائل مہیا ہوں تو وہ کم ہی جرائم کی طرف راغب ہوتا ہے لیکن پھر بھی جرم ہوتے ہیں اور یہ جرم کرنے والے نفسیاتی مریض اور ہم جیسے ملکوں میں حالات کے ستائے ہوتے ہیں انہیں جرم سے بچانا اور ان کی نفسیاتی گتھیاں سلجھانا بہر حال حکومت اور معاشرے کی ہی ذمہ داری ہے جس پر کسی وقت کسی رات کے پہر کوئی ایک آدھ تقریر وزیر اعظم کر دیں تو ہو سکتا ہے تبدیلی کے آثار نظر آ جائیں۔ معاشرے بہتر انسانی رویوں سے پروان چڑھتے اور ترقی کرتے ہیں اس ٹوٹتے بکھرتے اور انتشار زدہ معاشرے کے موجودہ حالات کے تناظر میں اس جانب توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے تاکہ ہمارا آنے والا کل بہتر ہو اور ہماری نسلیں جرائم کی دلدل میں گرنے سے بچ سکیں۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.