رجب سن 60 ہجری میں مدینہ کے اموی حاکم ولید بن عتبہ نے امام حسین ؑ کو یزید کی بیعت کے لئے بلایا مگر امام نے یزید جیسے بداطوار شخص کی بعیت سے انکار کر دیا ۔آپ ؑ ابھی مکہ میں ہی تھے کہ مختلف جگہوں سے کثیر تعداد میں لوگوں کے خطوط آنا شروع ہو گئے۔ ان تمام خطوط میں ایک ہی درخواست کی جا رہی تھی کہ آپ ؑ یزید جیسے فاسق و فاجر کو ہٹا کرمنصب ِ خلافت سنبھالیںاو رہم آپ ؑ کی بیعت کے لئے تیار ہیں۔ نواسئہ رسول کے لئے ممکن نہیں تھا کہ ایک ایسا شخص منصب ِ خلافت پر بیٹھا ہو جو شعائرِ اسلام کا مذاق اڑاتا ہو اور آپ ؑ خاموش ہو کر گھر بیٹھ جائیں ۔ یہ ہاشمی غیرت کے منافی تھا اور پھر جس بات کی خبر اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے امت کو پہلے ہی دے دی تھی کیسے ممکن تھا کہ وہ بات وقوع پذیر نہ ہوتی۔ ام المومنین حضرت امِ سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن میرے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص میرے پاس نہ آنے پائے ۔چنانچہ میں دروازے پر انتظار میں بیٹھ گئی۔ پھر حسین ؑ آئے اور اندر چلے گئے میں نے اس وقت رسول اللہ ﷺ کے رونے کی آواز سنی ۔ میں نے اندر جھانک کر دیکھا تو حضرت حسین ؑ آپ ﷺ کی گود میں تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کی پیشانی پر ہاتھ پھیر رہے تھے اور رو رہے تھے میں نے کہا : اللہ کی قسم مجھے نہیں پتہ چلا کہ وہ کس وقت آپﷺ کے پاس آئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جبریل ؑ ہمارے ساتھ اس گھر میں موجود تھے ۔ انھوں نے کہا : کیا آپﷺ ان سے محبت کرتے ہیں ، میں نے کہا : جہاں تک دنیا کا تعلق ہے تو ہاں ۔ اس پر انھوں نے کہا کہ آپ ﷺ کی امت انھیں ایسی سر زمین پر قتل کرے گی جسے کربلا ءکہا جاتا ہے ۔ پھر جبریل ؑ نے اس کی مٹی ہاتھ میں لی اور نبی اکرم ﷺ کو دکھائی ۔
آپ ؑ 2۔ محرم 61۔ہجری پنج شنبہ کے روز کربلا پہنچے ۔آپ ؑ نے کربلا میں پہنچ کر سب سے پہلے ساٹھ ہزار درہم کے عوض کربلا کی زمین خریدی ۔ ابن ِ ذیاد جو کہ یزید کی طرف سے کوفہ کا گورنر تھا ، اسے جب آپؑ کی کربلا آمد کی اطلاع ملی تو اس نے ابن ِ سعد کی سربراہی میں چار ہزار کا ایک اور لشکر آپ ؑ کے مقابل بھیجا۔ایک طرف اپنے چند اصحاب کے ساتھ نواسئہ رسول تھے اور دوسری طرف ہزاروں کی تعداد میں اشتیاءتھے ۔کیا ستم تھا کہ ساقی کوثر کے بیٹے اور نبی ﷺ کے گھرانے پر پانی بند کر دیا گیا تھا۔یزیدی لشکر میں اہل ِ بیت ِ رسول کے متعلق کس قدر کینہ تھا کہ اس دوران یزیدی لشکر سے ایک شخص عبداللہ بن ابی حصین آپ ؑ کے سامنے آیا اور پکار کر کہنے لگا ،اے حسین ؑ ذرا پانی کی طرف دیکھو کیسا آسمانی رنگ اس کا
بھلا معلوم ہوتا ہے واللہ تم پیاسے مر جاﺅ گے ۔ ایک قطرہ بھی تم کو نصیب نہیں ہو گا ۔ آپ ؑ نے یہ سن کر کہا کہ خداوند اس شخص کو پیاس کی ایذا دے کر قتل کر اور کبھی مغفرت نہ ہو۔روایت ہے کہ حمیدبن مسلم اس کی بیماری میں اس کی عیادت کو گیا ۔وہ کہتا ہے قسم ہے اس خدا ئے وحدہ لا شریک کی ، میں نے اسے دیکھا کہ پانی پیتا ہے اور پیاس پیاس کہے جاتا ہے پھر قے کر دیتا ہے پھر پیتا ہے اور پھر پیاسا ہو جاتا ہے پیاس نہیں بجھتی۔ یہی حالت اس کی یکساں رہی آخر مر گیا (تاریخِ طبری جلد چہارم صفحہ ۲۴۱)۔
نو محرم الحرام کو جب آپ ؑ نے دیکھا کہ یزیدی لشکر جنگ و قتال کے بغیر باز نہیں آئے گا تو آپ ؑ نے ان سے عبادت کے لئے ایک رات کی مہلت مانگی یا یوں کہہ لیں کہ آپ ؑ نے انھیں ایک رات کی مہلت دی کہ اگر کوئی حر ؑ جہنم کے کنارے پہنچ کر بھی جنت لینا چاہتا ہے تو اس کے لئے ایک رات کی مہلت ہے۔
صبح عاشور آپ ؑ نے میدان ِ کر بلا میں ایک تاریخی خطبہ دیا ۔ حمد و ثنا کے بعد آپ ؑ نے کہا کہ ” میرے خاندان کا خیال کرو کہ میں کون ہوں ۔ پھر اپنے اپنے دل سے پوچھو اور غور کرو کہ میرا قتل کرنا میری ہتک کرنا کیا تم لوگوں کے لئے حلال ہے کیا میں تمہارے نبی ﷺکا نواسہ نہیں ہوں ،کیا میں ان کے ابن ِ عم کا فرزند نہیں ہوں، جو کہ خدا پرسب سے پہلے ایمان لائے اور خدا کے پاس سے اس کے رسول ﷺ جو احکام لائے انھوں نے اس کی تصدیق کی،کیا سید شہدا حمزہ ؓ میرے والد کے چچا نہیں ہیں ، کیا جعفر طیار شہید ؓ ذوالجناحین میرے چچا نہیں ہیں ۔ کیا تم میں سے کسی نے یہ نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے اور میرے بھائی کی نسبت یہ فرمایا ہے کہ یہ دونوں جوانانِ اہلِ بہشت کے سردار ہیں اگر تم مجھ کو جھوٹا سمجھتے ہو تو سنو تم میں سے ایسے لوگ موجود ہیں ان سے تم پوچھو تو وہ بیان کریں گے۔ جابر بن عبد اللہ انصاری یا ابو سعید خدری یا سہل بن سعد ساعدی یا زید بن ارقم یا انس بن مالک سے پوچھ کو دیکھ لو۔ کیا یہ امر بھی میرا خون بہانے میں تم لوگوں کو مانع نہیں ہے۔(تاریخ طبری جلد چہارم صفحہ ۲۵۲)۔امام ؑ اتمام ِ حجت کرتے جاتے مگر جن کی قسمت میں جہنم لکھ دی گئی ہو ان پر کیسے اثر ہونا تھا ۔پھر روزِ عاشور دسویں محرم کو آسمان نے وہ منظر دیکھا کہ اس سے پہلے یا بعد میں کبھی نہ دیکھ ہو گا ۔مسلم بن عوسجہ اسدی انصار ِ حسین ؑ کے پہلے شہید ہیںجبکہ خانوادہ رسول کے پہلے شہید شہزادہ علی اکبر ؑ ہیں ۔پھر باری باری قافلہ حسینی ؑ کے افراد شہید ہوتے گئے اور پھر قیامت کی وہ گھڑی بھی آ گئی کہ جب ظالموں نے نواسہ رسول کو بے دردی اور ظلم کے ساتھ شہید کر دیا۔ سنان بن انس نخعی وہ ملعون شخص ہے کہ جس نے آپ ؑ کی گردن کاٹی(تاریخ طبری جلد چہارم صفحہ ۲۷۸)۔
عجب مذاق تھا اسلام کی تقدیر کے ساتھ
کٹا حسین ؑ کا سر نعرہ تکبیر کے سا تھ
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.