مزید مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی درخواست

59

پاکستان میں ممکنہ طور پر 2023 ہی الیکشن کا سال ہے ۔ اگر الیکشن واقعی اپنے وقت مقررہ پر ہو جائیں تو اب میلہ سجنے میں چند کچھ عرصہ ہی باقی رہ گیا ہے ۔ امید ہے کہ اگست سے ہی ملک میں عام انتخابات کی تیاریوں کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ متوقع الیکشن کے پیش نظر وفاقی اور صوبائی حکومتیں تیزی سے ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، سیاستدان عوامی رابطہ مہم بڑھا رہے ہیں اور اپنے اچھے اخلاق، خوش گفتاری، ملنساری اور وفاداری سے ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرانے کی کوشش کرنا شروع ہو گئے ہیں ۔اگر بات کریں پارٹی منشور کی تو استحکام پاکستان پارٹی کا منشور ہی سب سے زیادہ پرکشش معلوم ہوتا ہے۔
اب تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل بھی قائم ہو چکا ہے لیکن صد افسوس آج بھی سیاسی مخالفین میں رواداری، برداشت اور مخالف نظریات کے احترام کا شدید فقدان ہے۔ حتیٰ کہ کل تک کے سیاسی اتحادی آج ایک دوسرے کو مشتبہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور انہیں دوسری جماعتوں کے اعمال اور بیانات میں سازش کی بو آنا شروع ہو گئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر شائد بالکل درست طور پر الزام لگتا ہے کہ انہوں نے ملک کی سیاست کو پراگندہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کافی عرصہ پہلے جس قسم کے رویہ اور گفتگو سے تائب ہوگئے تھے عمران خان کے رویہ کی وجہ سے وہ سلسلہ دوبارہ چل نکلا ہے ۔ دو روز قبل پیپلز پارٹی کی راہنما شازیہ مری صاحبہ کی ایک گفتگو کسی ٹی وی چینل پر لائیو چل رہی تھی جس میں وہ عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے فرما رہی تھیں کہ، ’الزام تراشی اور گالی گلوچ کرنا ہمیں بھی خوب آتا ہے اور اگر انہوں نے اپنی زبان کو لگام دے کر نہ رکھا تو بھر پور انداز میں جواب دیا جائے گا‘۔ دوسری طرف خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف اور حتیٰ کہ سردار ایاز صادق بھی تلواریں نیام سے نکال کر میدان میں کود چکے ہیں۔
چونکہ عمران خان تو کسی بھی صورت اپنی روش سے باز رہنے والے نہیں ہیں اور اگر نواز لیگ اور پیپلزپارٹی نے بھی اسی انداز میں جواب دینا شروع کر دیا تو بات بڑھتے بڑھتے کہاں تک جائے گی اس کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔یعنی جوتیوں میں دال بٹنا یقینی ہے۔
ویسے تو ہمارے سیاسی نظام میں کسی کو بھی کوئی عقل کی بات بتانا یا سمجھانا ایک ناممکن سا عمل ہے لیکن نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو کم از کم اتنی بات تو سمجھنی ہی چاہیے کہ اگر کوئی شخص ماضی میں اپنی بدتمیزیوں ، بد تہذیبی اور بد اخلاقی سے تائب ہوا تھا اور اس نے اپنی ان حرکتوں پر شرمندگی کا اظہار بھی کیا تھا تو اسے وہ حرکتیں دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں بات تک نہیں کرنی چاہیے خاص طور پر یہ توضیح تو کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہونی چاہیے کہ میں فلاں شخص کی وجہ سے دوبارہ بدتمیز ہو گیا ہوں بلکہ ایسے شخص کو تو اضافی سزا ملنی چاہیے۔اگر یوں کہا جائے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے عمران خان کی پیروی میں کوئی ایسا کام دوبارہ شروع کیا تو ان کی یہ حرکت یہ ثابت کرے گی کہ وہ لاشعوری طور پر عمران خان کو ہی اپنا لیڈر تصور کرتے ہیں۔ اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ عمران خان ہی واحد قائد ہے تو پھر الیکشن وغیرہ کا سٹنٹ کیوں؟ سیدھے سیدھے اقتدار ایک مرتبہ پھر سے عمران خان کو منتقل ہو جانا چاہیے اور پھر جو مزاج یار میں آئے!
پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوس خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔اس قسم کے واقعات کی روک تھام اور انہیں کنٹرول کرنے کے لیے ضرورت تو اس بات کی ہوتی ہے کہ ایسے جرائم کے ہونے کی وجوہات تلاش کی جائیں اور پھر ایسے اقدامات کیے جائیں کہ آئندہ اس قسم کے جرائم نہ ہوں ۔ لیکن افسوس ہمارے ہاں اس قسم کا کوئی کلچر فروغ ہی نہ پا سکا۔ بجائے اس کے ہمارے سیاستدان کم ازکم خواتین اور بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف یکجا ہو کر کوئی مضبوط قانون سازی کرتے ان لوگوں نے اس قسم کے واقعات پر بھی سیاست شروع کر رکھی ہے ۔ ہمارے سیاسی راہنما جب جرائم کا شکار ہونےوالوں خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے میڈیا کی پوری فوج کے ہمراہ ان کے گھروں پر جاتے ہیں اور پھر وہاں بیٹھ کر اپنی سیاست بگھارتے ہیں تو یقینا ایک عام آدمی کا دل چاہتا ہو گا کہ مجرموں کے ساتھ ان گھٹیا سیاستدانوں کو بھی الٹا لٹکا دے اور آئین و قانون سے بالا تر ہو کر ان کو سزائیں دے۔شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ان سیاستدانوں کے لیے، ان کے چیلوں کے لیے اور اس میڈیا کے لیے جو ایسے لوگوں کی ڈرامہ بازی کی لمحہ بہ لمحہ لائیو کوریج کرتا ہے ۔
حال ہی پر منظر عام پر آنے والی دو خبریں ، اسلامیہ پونیورسٹی بہالپور کی انتظامیہ اور کچھ اساتذہ کا جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر طالبات کا استحصال کرنا اور اسلام آباد کے ایک جج کے گھر میں ایک معصوم ملازمہ پر بدترین تشدد ہونااور ان دونوں واقعات میں پولیس کا اصل مجرمان پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہونا پورے معاشرے بالخصوص اس سیاسی نظام کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
کسی عام آدمی کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے جانے پر اپنے تمام تر تحفظات کے بعد وجود میں تو یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس قسم کے درندوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلنے چاہیں اس کے علاوہ اسمبلیوں میں بیٹھے قانون سازی کے ٹھیکیداروں کی تعلیم و تربیت کا خصوصی بندوبست ہونا چاہیے۔
موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے کو ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس پوری مدت میں ان سیاسی پارٹیوں جن کی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومتیں قائم تھیں کو خواتین اور بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم سے متعلق قانون سازی تو دور کی بات اس مسئلہ پر بات کرنے تک کی توفیق نہ ہوئی اور آج بھی انہیں اپنی نااہلیوں کے بجائے دوسروں کی کوتاہیاں نظر آرہی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.