اب تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے انعقاد پر طوعاً و کرہاً متفق نظر آتی ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں کو یہ دھڑکا بھی لگا ہوا ہے کہ اگر پی ٹی آئی ان کے مدمقابل عوامی طاقت کے ساتھ آن کھڑی ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے انہیں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکیں مگر بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اب پی ٹی آئی اپنی عروج کہانی کے خاتمے کے قریب پہنچ چکی ہے لہٰذا کسی کو پریشان نہیں ہونا چاہیے ان کا یہ تجزیہ ایک حد تک درست بھی ہو گا مگر یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے جس بنیاد پر خاتمے کا کہا جا رہا ہے کہ اس سے بہت سے بڑے چھوٹے نام الگ ہو چکے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنے حلقوں میں آج بھی اتنے مقبول ہوں جو کبھی ہوا کرتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں حقائق پسندی کافی آ گئی ہے وہ جب موجودہ صورت حال کو اپنے لیے تکلیف دہ دیکھ رہے ہیں کہ جس میں ان کی زندگیاں مہنگائیوں اور نا انصافیوں کے شکنجوں میں جکڑی ہوئی ہیں اور اس سے نجات کا راستہ بھی دکھائی نہیں دے رہا تو وہ اس کے (صورت حال) ذمہ داران سے بے حد و حساب نالاں ہیں اور یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ اب وہ اسے اپنا نمائندہ منتخب کریں گے جو ان کے دکھوں کا مداوا کر سکے ان کی خفگی بجا مگر انہیں معلوم ہو گا کہ تمام سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے سے پہلے جو تقریریں کرتی ہیں وعدے اور دعوے ایسے کہ بندے کو خوشی کے مارے رات بھر نیند نہ آئے مگر کیا انہوں نے کبھی اپنے وعدوں پر پورا اترنے کی کوشش کی اس کا جواب نفی میں ہو گا لہٰذا انہیں اب امیدوں اور آسوں کی دنیا سے باہر آنا ہو گا یعنی وہ یہ سوچ بدلیں اوراپنے نمائندے منتخب کرنے سے پہلے یہ اطمینان کریں کہ وہ جس شخص کو اختیارات کا قلمدان سونپنے جا رہے ہیں اس کا ماضی کیا رہا ہے اگر وہ نیا ہے تو
اس کی جماعت کیسی تھی کہ اس نے جو کہا اس پر عمل کیا۔ اس نے عام زندگی میں کیا اصول اور ضابطے اختیار کیے ان باتوں کو پیش نظر رکھنا از حد ضروری ہے۔
اب دوبارہ آتے ہیں عام انتخابات کی طرف اگر وہ بروقت ہوتے ہیں اور ہر جماعت کو آزادانہ ان میں شریک ہونے کی اجازت ہو گی تو نتائج حیران کن ہوں گے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جمہوریت کا کوئی اعلیٰ نمونہ پیش کر سکے گی ابھی ہم اس سطح پر نہیں پہنچ سکے اس میں وقت لگے گا لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات سے پہلے حصہ لینے والے امیدواروں کو باضابطہ طور سے اصول و اخلاق کا پابند بنایا جائے علاوہ ازیں ان کی ایک اکیڈمی میں تربیت کی جائے ”وِل ڈیورنٹ“ اس عمل کی بھرپور حمایت کرتا ہے کہ ان عوام کے نمائندوں کو حکومتی معاملات کے حوالے سے پڑھا یا لکھایا جائے جس کا انتظام سرکاری سطح پر ہو کیونکہ جب زندگی کے دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے لوگ متعلقہ اداروں میں جا کرتعلم حاصل کرتے ہیں تو ان نمائندوں کو بھی اپنے شعبے کے بارے میں پورا ادراک ہونا چاہیے اور وہ اس پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہوں مگر یہ لوگ خواہ کچھ بھی ہوں پیسا ان کے پاس ہونا چاہیے سیاسی میدان میں کود پڑتے ہیں اور کامیاب ہوکر اپنے فرائض کو بھول جاتے ہیں اسی لیے اب تک ملک میں قحط کی سی صورتحال ہے۔ غربت نے ہر غریب کو بدحال و نڈھال کر دیا ہے اس کی سمجھ بوجھ پر پردہ ڈال رکھا ہے لہٰذا وہ کسی اعصابی مریض کی طرح ڈگمگاتا پھررہا ہے۔
اوپر جو ہم نے عرض کیا ہے اس کامقصد یہ ہے کہ انتخابات کے لیے کوئی جماعت بے چین ہو یا نہ ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ جب تک یہ نظام حیات تبدیل نہیں ہوتا آئین وقانون کو موم کی ناک سمجھنے سے اجتناب نہیں برتا جاتا ہر برس بھی انتخابات ہوں کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ اسی طرح استحصال جاری رہے گا۔ ذرا سوچیے حکمران معیشت کو ٹھیک کرنے کی آڑ میں اندھا دھند نئے نئے ٹیکس لگائے چلے جا رہے ہیں معذرت کے ساتھ ان سے پوچھاجا سکتا ہے کہ وہ آئندہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو ملک میں خوشحالی کی بادنسیم کیسے چلائیں گے۔ بہر کیف اگر کسی کو غریبوں کا کوئی تھوڑا سا بھی خیال ہے تو انہیں فی الفور ریلیف دیے جائیں تمام سویلین اداروں کو عوامی فلاح کے لیے متحرک کیا جائے یہ جو مجموعی بیورو کریٹک رویہ ہے اس کا خاتمہ کیا جائے، بنیادی انسانی حقوق کا در کھول دیاجائے۔ اظہار رائے کی آزادی کو مکمل طور سے ممکن بنایا جائے اگر اب بھی پچھلے ادوار کی طرح گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ پروگرام جاری رکھنا ہے تو پھر حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم اپنے شاعروں ادیبوں کو وہ مقام نہیں دیتے جو یورپ و مغرب میں دیا جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ سماج کی پرتوں میں جھانک کر ادب تخلیق کرتے ہیں جو معاشرے کو بہتر سے بہتر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ایک شاعر اور ادیب ہی تو ہے جو کسی گروہ یا جماعت سے تعلق خاطر نہ رکھتے ہوئے اجتماعی مصائب کی بات کرتا ہے اور اپنی دھرتی سے جڑا ہوتا ہے جسے وہ کبھی بھی خزاؤں کی اداسیوں میں گِھرا نہیں دیکھنا چاہتا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.