ہمیں اپنے عوامی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اپنی حکومتوں پر زور دینا چاہیے کہ وہ ان مسائل کے حل کے لئے کوششیں کریں اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام سوشل میڈیا سے لیکر ہر سطح پر ایسے مسائل جن کا انسانی زندگی اور معاشرے سے گہرا تعلق ہے کا شعور اجاگر کرنے کے لئے آواز بلند کی جائے۔ گر می کے بڑھتے ہی ہمارے مزاجوں میں تلخیوں میں بھی اضافہ ہو جاتاہے جس سے ہم مزید غیر محفوظ ہوتے جارہے ہیں لیکن ہم ان وجوہات کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے جو ہمارے سماج کی ٹوٹ پھوٹ کا ذمہ دار ہیں۔گرمی میں اضافے کی ایک وجہ ماہرین درختوں کا بے دریغ کاٹنا بتاتے ہیں۔ایک بڑا درخت 36ننھے منے بچوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے جبکہ دس بڑے درخت ایک ٹن ائیر کنڈیشنر جتنی ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں اور ساتھ ہی فضائی آلودگی اور شور کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گندے نالوں کے دونوں کناروں پر لگائے گئے درختوں کی جڑیں گندے مادوں کو جذب کرکے ناگوار بو کم کرتی ہیں۔ جبکہ اس کے پتے ماحول کو صاف ہوا مہیا کرتے ہیں۔ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کا پچیس فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہونا چاہئے اس تناسب سے دیکھیں تو پاکستان کے صرف4.8 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جبکہ صوبہ سرحد میں یہ تناست 17 فیصد ہے۔ اس میں بھی 2.5فیصد کھیتوں میں اگنے والے درختوں پر مشتمل ہے۔جنگلات کا یہ رقبہ نہ ہونے کے برابر ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتوں کے لئے ناکافی اور اس میں اضافے کی شدید ضرورت ہے تاکہ ہم تازہ ہوا میں سانس لینے کے قابل ہو سکیں۔
قدیم اور گھنے درخت ماحولیاتی نظام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، کچھ ماحولیاتی نظاموں میں 30 فیصد سے زائد پرندوں اور جانوروں کی جائے پناہ ہیں۔ یہ نہ صرف جنگلی حیات کیلیے اہم ہیں بلکہ انسانوں کو بہتر اور صحت مندانہ ماحول کی فراہمی میں ان کی اہمیت مسلم ہے۔ تحقیقی رپورٹ میں حکومتوں اور پالیسیاں مرتب کرنے والے حکام پر زور دیا گیا ہے کہ دنیا میں قدیم و گھنے درختوں کی تعداد میں تیزی سے ہوتی کمی کے مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے ان کے بچاؤ کیلیے اقدامات کریں سائنسدانوں نے خبر دار کیا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان قدیم درختوں کے ساتھ ساتھ ان سے جڑی کئی اور جنگلی حیاتیات بھی صفحہ ہستی سے ناپید ہو جائیں گی۔ ہمارے ہاں جس طرح ووٹر کی نہیں ووٹ کی اہمیت ہے اسی طرح درخت کی نہیں بلکہ اس کی لکڑی کی اہمیت زیادہ ہے، اس لیے ہمارے ہاں جنگلات آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں۔ کسی زمانے میں یہی جنگلات لاکھوں ایکڑ پر محیط تھے مگر اب صرف ہزاروں ایکڑ تک محدود ہو گئے ہیں۔ اگر درختوں کی کٹائی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہی جنگلات کچھ سو ایکڑ تک محدود ہو کر رہ جائیں گے۔
جن ملکوں میں ٹھنڈا ماحول ہے وہاں جنگلوں کا تناسب ایک اندازے کے مطابق روس میں 48 فیصد، برازیل میں 58 فیصد، انڈونیشیا میں 47 فیصد، سویڈن میں 74 فیصد، اسپین میں 54 فیصد، جاپان میں 67 فیصد، کینیڈا میں 31 فیصد، امریکا میں 30 فیصد، بھارت میں 23 فیصد، بھوٹان میں 72 فیصد اور نیپال میں 39 فیصد جنگلات پائے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں صرف 2.19 فیصد جنگلات ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کتنے ماحول دوست ہیں۔ اس کے علاوہ مینگرووز کے جنگلات تقریباً 207000 ہیکٹرز پر ہیں۔ سندھ میں یہ 600000 ہیکٹرز پر مشتمل ہیں، جبکہ محکمہ جنگلات اس وقت 241198 ہیکٹرز تک کچے کی زمین پر اپنا کنٹرول رکھتا ہے۔ہمارے محکمہ جنگلات کی کارکردگی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس کا کام درختوں کی کٹائی کو روکنا نہیں، بلکہ اس سلسلے کو جاری رکھنا ہے۔ لاہور میں پلوں،سڑکوں اور میٹرو ٹرین کے نام پر درختوں کا بے دریغ قتل عام ہو ا ہے۔”دوسروں کو بیچ چوراہے میں ”گندہ“ کرنے والے عمران خان اور ”نیک نیتی اور پارسائی“ کا درس دینے والے دیگر صاحباں اگر اپنے جوش خطابت میں عوام کے مسائل کو ترجیح دیتے تو آج خان اقتدار کے مزے لوٹ رہاہوتا۔ لیکن ان نابغوں کے نزدیک قدرتی ماحول کو ڈسٹرب کرنا اور عوام کے مسائل کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے بلین ٹری فراڈ کی صورت تحقیقات کی زد میں ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے پنجاب میں مختلف ترقیاتی کاموں کی وجہ سے لگ بھگ 2200 سے زائد درخت کاٹے جا چکے ہیں جبکہ میگا پروجیکٹ اورینج لائن ٹرین منصوبے کے لیے 1700 درختوں کا کاٹا جانا بتایا جاتا ہے۔اب تک ترقیاتی کاموں کی وجہ سے کاٹے گئے درختوں میں جامن، لیموں، شہتوت، شیشم، کیکر، ربڑ، امرود، نیم، پھولائی، کتھا، سدا بہار، یوکلپٹس اور سفید زیرے کے درخت شامل ہیں۔ درختوں کی اہمیت سے سب واقف ہیں اور یہ وقت کی بھی اہم ضرورت ہے کہ درخت گرانے والے شعبہ جات اور حکام کاٹے گئے درختوں سے 5-10 گنا زیادہ درخت کی کاشت بھی کریں۔درختوں کا بے دریغ قتل ایک طرف ماحولیاتی آ لودگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے تو دوسری جانب گرمی کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال درجہ حرات بڑھنے کی بنیادی وجہ درختوں کا دن بدن کم ہونا ہی ہے دوسری جانب لاہور شہر کو کنکریٹ کا پہاڑ بنا کر رکھ دیا گیا ہے جس سے گرمی بڑھتی جارہی ہے حکومت کے ذہن میں تو شہر کو پیرس بنانے کی دھن سوار ہے لیکن اس ”پیرس“ میں رہنے والے شہریوں پر کیابیت رہی ہے اس کا احساس نہیں المیہ ملاحظہ کیجیے کہ اپنے مطالبات حتیٰ کہ کرپشن کے مسئلے پر بھی مذہبی و دیگر جماعتیں ہر روز شہر کی سڑکیں بلاک کرتی پائی جارہی ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی لیکن قدرت کے خلاف جانے اور خلق خدا کی زندگیاں اجیرن کرنے والے مسائل پر سب خاموش ہیں۔حالانکہ سڑکیں بلاک کرنے والوں کی اکثریت رات کو شدید گرمی اور بجلی نہ ہونے کے باعث اپنی راتیں گھروں سے باہر بیٹھ کراذیت میں کاٹتی ہے کاش ان لوگوں کو اپنے حقیقی مسائل یا مرض ہی کا ادراک ہو جائے۔
حرف آخر: آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد بجلی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ یہاں انسانوں پر موت بن کر گرے گا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم بجلی بھی پوری نہیں کر پارہے،ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک بھر میں انرجی کے دیگر ذرائع کو فروغ دیا جائے سولر سسٹم پر ٹیکسز زیرو کئے جائیں تاکہ سستی توانائی ملنے سے کاروبار میں بھی اضافہ ہو اور لوگ بھی زائد بل آنے کے باعث کی جانے والی خود کشیوں سے بچ سکیں۔
تبصرے بند ہیں.