ایک برس سے زیادہ ہوگیا پاکستان میں الیکشن الیکشن کا شور ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے فوراً ”انتخابات ہوں تو کوئی الیکشن سے بھاگ رہا ہے۔ دنیا بھر میں انتخابات آئین کے تحت ہوا کرتے ہیں۔ اگر مگر کی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہاں امریکہ میں ہر چار سال بعد انتخابات ہونا ہوتا ہے۔ کوئی تاریخ نہیں دی جاتی۔ تاریخ طے ہوتی ہے۔ کوئی آگے پیچھے نہیں کرسکتا۔ شروع شروع جب میں امریکہ آیا بل کلنٹن امیدوار تھے۔ میں نے دیکھا عام لوگوں کو خصوصاً ”نئی نسل کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ نائب صدر کا امیدوار کون ہے۔ اللہ بھلا کرے براک اوبامہ کا جس نے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں جان ڈال دی۔ کیا کالا کیا گورا کیا ایشیائی اور کیا عرب سب الیکشن کو انجوائے کر رہے تھے۔ ایک عجیب معاملہ ہے یہاں کے انتخابات کا۔ کوئی بھی امیدوار عوام کی اکثریت کے ووٹ لے کر بھی ضروری نہیں کہ کامیاب قرار پائے۔ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد الیکٹورل کالج ہی اپنی نمائندگی کے تناسب کے حساب سے ووٹ دیتے ہیں اور اسی سے کامیابی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ کہ اکثر لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے انفرادی ووٹ کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں۔۔ ان سب باتوں کے باوجود سسٹم ہے کہ چل رہا ہوتا ہے۔ چلیں یہ تو بات ہوئی امریکہ کی جس کا پاکستان سے کیا موازنہ کیا جائے۔ بھارت تو پڑوس ملک ہے۔ ہمارے ساتھ آزاد ہوا۔ وہاں مارشل لا بھی نہیں لگتا۔اتنا بڑا ملک اتنی بڑی آبادی۔ مگر انتخابات وقت پر ہی ہوتے ہیں۔ انتخابی عمل مکمل ہونے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ ایران کو لے لیجئے۔ پوری پارلیمنٹ کو بم سے اڑا دیا گیا مگر چند ہفتوں کے اندر عام انتخابات کرا دیا گیا۔ اب ابھی کی بات ہے ترکیہ میں شدید نوعیت کا زلزلہ آیا۔ معیشت کو دھچکا لگا۔ مگر انتخابات وقت پر ہوئے۔ پاکستان میں کیا عجیب تماشہ ہوا۔ ایک برس پہلے تیرہ جماعتوں نے اس وقت کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے تحت حکومت تبدیل کردی۔ مخالف سیاسی جماعت کو مطعون کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے کے بجائے صرف مخالف جماعت کو سیاست اور انتخابی عمل سے دور کر دینے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئیں۔۔ پہلے بہانہ بنایا گیا کہ سیلاب کی تباہ کاریاْ ں اتنی ہیں کہ پہلے اس پر توجہ دی جائے گی۔ پھر کہا گیا کہ جب تک مردم شماری نہیں ہوگی انتخابات نہیں ہوں گے۔ پھر کہا گیا پہلے نواز شریف آئیں گے تب انتخابات ہوں گے۔ پھر اخراجات کا رونا رویا گیا۔ اب اس کا انتظار ہے کہ خان نااہل ہو۔ پارٹی کے لوگ نکل جائیں۔ تب الیکشن ہوں۔ یہ سارے حیلے بہانے اس لئیے ہیں کہ عوام میں تیرہ جماعتوں کی مقبولیت صفر ہے۔ ایسے میں الیکشن کیا معنی رکھتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ فضل الرحمان انتخابات کو ایک سال آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کی صرف ایک خواہش ہے۔ پاکستان روانگی سے پہلے ان کے مقدمات ختم ہوں اور وہ پاکستان آجائیں۔ زرداری چاہتے ہیں جلد یا وقت پر الیکشن ہوں۔ کیونکہ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔ سندھ کے علاوہ جہاں جہاں سے جتنی بھی نشستیں ملیں یہ بونس ثابت ہوں گی۔ الیکشن اسی سال ہوں یا اگلے سال بس ایسے ہی ہوں گے جیسے پاکستان میں آج تک ہوتے رہے ہیں۔ چاہے ووٹ دینے کے لئے ووٹر نہ بھی نکلیں مگر بیلٹ باکس بھرے ملیں گے۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ 1954 کے انتخابات کیسے ہوئے تھے مجھے نہیں معلوم۔۔ ڈھنگ کے انتخابات پہلی بار 1970 میں ہوئے۔ بھائی لوگ کہتے ہیں صاف اور شفاف ہوئے تھے۔ مغربی پاکستان کا میں نہیں کہہ سکتا مگر مشرقی پاکستان میں تو چند شہروں کے علاوہ ہر جگہ ووٹ تو ڈالے ہی نہیں گئے۔ عوامی لیگ کے ہزاروں ڈنڈا بردار کارکن ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر جمع ہوتے۔ کوئی ووٹر اندر نہیں جا سکتا تھا۔ پریذائیڈنگ افسر نے باہر آ کر مجمعے سے پوچھا کس کو ووٹ دینا ہے؟ مجمع چیختا“نوکا”(کشتی)۔ تھوڑی دیر بعد پریذائڈنگ افسر آکر اعلان کرتا کہ عوامی لیگ جیت گئی۔ ملک ٹوٹا یہ تو الگ داستان خوں چکاں ہے۔ پھر بات کریں گے۔ چلئے 1977 میں۔ الیکشن کا رزلٹ کیا آیا کہ جیسے ایک بھونچال آگیا۔ پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) بنی۔ ہنگامے بڑھتے گئے۔ دھاندلی کی خبر بہت پھیل گئی۔ اصغر خان نے خط لکھ کر فوج کو دعوت دے دی کہ مارشل لا لگے۔ اس کے بعد غیر جماعتی انتخابات ہوئے پھر 2013 کے انتخابات جیسے تھے آپ لوگ سب جانتے ہیں۔ 2018 میں طے ہو گیا تھا کہ میاں نواز شریف کو بھونڈے طریقے سے نا اہل کیا گیا۔۔ یہی نہیں کس طرح پی ٹی آئی کو اقتدار میں لایا گیا۔ اب جو الیکشن ہوگا۔ ایک برس کے بعد ہو یا دو برس کے بعد، اگر اسی طرح ہونا ہے کہ اپوزیشن ہو گی اور نہ ووٹ ڈالنے والا۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے کراچی میں بلدیاتی الیکشن ہوئے۔
ایسا ہی ہوتا رہا تو جمہوریت،الیکشن عوامی رائے۔۔۔ سب زمین بوس ہو جائیں گے۔ اللہ نہ کرے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.