انٹرنل سیکیورٹی فوج کے ماتحت ہو سکتی ہے

58

ریاست کا بہتر انتظام چلانے کے لیے وزارتیں بنائی جاتی ہیں جن کے ذمے اپنا اپنا ٹاسک ہوتا ہے۔ اِن میں خزانہ، دفاع، داخلہ، خارجہ امور، قانون، صحت، تعلیم اور ثقافت وغیرہ کی وزارتیں سرفہرست ہیں۔ وزارتوں کی نوعیت اور اُن کی تعداد کا فیصلہ ہر ریاست اپنی سہولت اور ضروریات کو مدنظر رکھ کر کرتی ہے۔ باشعور اور جمہوری معاشروں میں وزارتوں کے ٹاسک اور اُن کی تعداد میں تبدیلی یا ترمیم گناہ تصور نہیں ہوتا بلکہ عصر حاضر کے تقاضوں کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا دانشمندی کہلاتی ہے جبکہ فرسودہ یا ناکارہ ڈھانچے پر بضد رہنا جہالت کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں وزارت داخلہ کے پاس پولیس، رینجرز، ایف سی، آئی بی، ایف آئی اے، شہریوں کی رجسٹریشن، پاسپورٹ و امیگریشن، پبلک ایڈمنسٹریشن، ایمرجنسی مینجمنٹ، نیشنل سکیورٹی، الیکشنز کے انتظام میں معاونت، اندرونی پالیسیوں پر عمل درآمد، فاٹا اور پاٹا کے علاقائی امور پر ریاست کی معاونت اور نارکاٹکس کنٹرول وغیرہ کے شعبے ہیں۔ وزارت داخلہ کا یہ ڈھانچہ اُس وقت تیار کیا گیا جب دنیا میں دہشت گردی کی موجودہ شکل ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ اُس وقت وزارت داخلہ کو اپنے ہی ملک کے چھوٹے بڑے چوروں، ڈاکوؤں اور شرپسندوں سے نمٹنا ہوتا تھا جبکہ فوج کے ذمے صرف سرحدوں کی حفاظت تھی۔ اُس وقت فوج ملک کی اندرونی سیکورٹی سے عموماً مطمئن ہوتی تھی کیونکہ وزارت داخلہ کو سیکورٹی کے لیے کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں تھا۔ تقریباً تین دہائیوں سے ملک کی اندرونی سیکورٹی کو درپیش چیلنجوں میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ اُن کی نوعیت میں بھی یکسر تبدیلی آگئی ہے۔ وزارت داخلہ کو اب اپنے ہی ملک کے اندر چوروں، ڈاکوؤں یا شرپسندوں سے زیادہ پریشان کن خطرہ لاحق نہیں ہے بلکہ دہشت گردوں جیسے تباہ کن عناصر کا زیادہ سامنا ہے۔ اِن دہشت گردوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطہ ملک کے بیرونی دشمنوں سے ہے۔ یہ دشمن کبھی نظریاتی اختلاف یا کبھی جغرافیائی اختلاف کی وجہ سے ملک کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے۔ اِن دہشت گردوں کو
تربیت، پیسہ اور اسلحہ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ملک کے بیرونی دشمنوں سے ہی ملتا ہے۔ اس طرح کے تباہ کن عناصر کو انجام تک پہنچانے کے لیے وزارت داخلہ حساس اداروں کا سہارا لیتی ہے جن کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ فوج سے ہی ہوتا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جدید ٹریننگ کی وجہ سے پاک فوج ہی بیرونی دشمنوں کی تکنیک سے واقف ہوتی ہے، انہیں کاؤنٹر کرنے کا طریقہ جانتی ہے اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے ذریعے دشمن کو دبوچنے کی مہارت بھی رکھتی ہے۔ گویا فوج جو کام پہلے سرحدوں پر سرانجام دیتی تھی دشمن کی شکل بدل جانے کی صورت میں وہی کام فوج کو خود ملک کے اندر بھی سرانجام دینا پڑرہا ہے۔ وزارت داخلہ کے ماتحت پہلے رینجرز اور ایف سی جیسی پیراملٹری فورسز اور سِول انٹیلی جنس ادارے تھے۔ اب ان کی مدد کے لیے فوج کو بھی آنا پڑتا ہے۔ اس طرح وزارت داخلہ میں خصوصی تربیت اور ایکشنز کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ فوج سے ہی جڑتا ہے۔ اِن امور کی انجام دہی کے دوران فوج کے بہت سے سینئر جونیئر افسران اور جوان ملک کے اندر شہید یا زخمی ہوچکے ہیں۔ پہلے فوج کے افسران یا سپاہی سرحدوں پر شہید یا زخمی ہوتے تھے لیکن اب فوج کو ویسی ہی صورتحال ملک کے اندر پیش آجاتی ہے۔ گویا ملک کے ایک جیسے ہی دشمن سرحدوں سے باہر بھی ہیں اور سرحدوں کے اندر بھی ہیں جن کا سامنا فوج کو ہی کرنا پڑرہا ہے۔ فوج کو سِول اداروں کی معاونت کی اجازت دینے کے لیے حکومت کو قانونی پیچیدگیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس قانونی پراسس میں بہت سے سیاسی مفادات بھی شامل ہو جاتے ہیں جن کے باعث ایکشن دیر سے ہوتا ہے یا نہیں ہوتا جس کا فائدہ دشمن کو پہنچتا ہے۔ اس کی مثال نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ اس پر عمل درآمد کے لیے ہرصورت میں بالواسطہ یا بلاواسطہ فوج سے ہی مدد لینا پڑے گی۔ جیسے پہلے کہا گیا کہ بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے سے ہی وجود برقرار رہتا ہے، ویسے ہی اگر ہماری وزارت داخلہ کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کرکے انٹرنل سیکورٹی کے تمام معاملات براہِ راست فوج کے ذمے کردیئے جائیں تو جہاں بہت سی قانونی و سیاسی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے وہیں بیرونی دشمن کا ساتھ دینے والے اندرونی دشمن کو فوری تباہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایک اور بات پر غور کیا جائے تو ہمارے ہاں سِول ملٹری ریلیشنز میں اتار چڑھاؤ کی ایک بڑی وجہ وہی قانونی و سیاسی پیچیدگیاں ہیں جن کے باعث فوج کو انٹرنل سیکورٹی سنبھالنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ جیسے پہلے لکھا گیا کہ شہریوں کی بہتری کے لیے قانون میں تبدیلی گناہ تصور نہیں ہوتی اسی فارمولے کو مدنظر رکھ کر دنیا پر نظر ڈالی جائے تو مختلف ملکوں کی وزارت داخلہ ہمارے ملک کی وزارت داخلہ سے مختلف کام بھی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض ملکوں کی انٹرنل سیکورٹی وزارت داخلہ کے بجائے ایک علیحدہ پبلک سیکورٹی کی وزارت کے ذمے ہے۔ مثلاً ہانگ کانگ میں وزارت داخلہ کے پاس کمیونٹی امور، کلچر، سپورٹس اور لوکل گورننس کے شعبے ہیں جبکہ پولیس اور سیکورٹی کے معاملات سیکرٹری برائے سیکورٹی کے پاس ہیں۔ بھارت میں وزارت داخلہ انٹرنل سیکورٹی، انٹیلی جنس، پولیس، ڈیموگرافی اور سرکاری زبان کے معاملات کو دیکھتی ہے۔ جاپان میں نیشنل سیکورٹی اور امیگریشن منسٹری آف جسٹس کے تحت آتے ہیں جبکہ وہاں وزارت داخلی امور اور کمیونیکیشن کے ذمے ایڈمنسٹریٹو سسٹم، لوکل گورنمنٹ، الیکشنز، ٹیلی کام اور ڈاکخانے کے شعبے ہیں۔ بعض ملکوں میں وزارت داخلہ کو لوکل گورنمنٹ، پبلک ایڈمنسٹریشن اور الیکشنز تک محدود کیا گیا ہے جبکہ پولیس اور نیشنل سیکورٹی کے لیے علیحدہ وزارتیں بنائی گئی ہیں جن میں اسرائیل، یونان اور ویتنام کی مثالیں شامل ہیں۔ امریکہ میں شعبہ داخلہ مختلف کام سرانجام دیتا ہے جن میں قدرتی وسائل کا انتظام وتحفظ اور مقامی لوگوں کے لیے پالیسی سازی وغیرہ شامل ہیں۔ سیکورٹی کے وہ کام جو بعض دوسرے ملکوں میں وزارت داخلہ کرتی ہے وہ امریکہ میں علیحدہ ڈیپارٹمنٹس یعنی ہوم لینڈ سیکورٹی اور جسٹس کے ذمے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی حساس انٹرنل سیکورٹی کے معاملات قانونی و سیاسی پیچیدگیوں سے گزرکر دراصل فوج کو ہی ہینڈل کرنا پڑتے ہیں۔ کیا جمہوری طریقے سے ترامیم کے ذریعے ان قوانین کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا؟ اور پاکستان میں بھی شہریوں کی بہتر سیکورٹی کے لیے کیا انٹرنل سیکورٹی کے معاملات براہِ راست فوج کے ماتحت نہیں کئے جاسکتے؟

تبصرے بند ہیں.