جناب علی ؓ کا قول ہے ”طاقت اور اختیار ملنے پر لوگ بدلتے نہیں بے نقاب ہوتے ہیں“۔ یہ انسانی خواب ہی ہیں جو ارتقا کے سماجی عمل کو زندہ رکھتے ہیں۔ خواب ٹوٹے تو خواب دیکھنے والے نئے خواب نہیں دیکھتے اُس سلسلے کو وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے منقطع ہوا ہوتا ہے۔ یہی ارتقا کی حقیقی شکل ہے۔ رستے بدلتے رہتے ہیں لیکن منزلیں نہیں بدلتیں، ساتھی بدل جاتے ہیں لیکن تازہ افکار اور جواں خون اُس خواب کی رگوں میں زندگی بن کر دوڑتے رہتے ہیں۔ فرد معمولی چیز ہے کیونکہ اسے موت آ جاتی ہے بنیادی بات فلسفہ ہوتا ہے جسے موت آئے تو تہذیبیں مٹ جاتی ہیں اور اُن کی جگہ نئے فلسفے نئی تہذیبوں کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ معروض ایک ایسی کشمکش کا شکار ہے کہ تبدیلی کے خواہشمند خود نہیں جانتے کہ تبدیلی کیسے آئے گی؟ وہ انقلاب اور تبدیلی کی بنیادی سائنس سے ہی ناواقف ہیں۔ اُن کی ابھی تک کی کاوشیں ریاست کو اندر سے توڑنے کی سوا کچھ نہیں، وہ پرانے نظام سے نفرت کرتے ہیں لیکن پرانے نظام کے اجارہ داروں کے ساتھ مل کر انہیں کے خلاف ایسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں جو اُن کی قیادت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اُن کے ذہنوں میں پرانے نظام سے نفرت تو موجود ہے لیکن نئے نظام کا کوئی نقشہ اُن کے اپنے پاس بھی نہیں، کھوکھلے نعروں کے نتیجہ میں چلنے والی ریاست نے پاکستان کے ہر گھر کو متاثر کیا ہے، ہم گزشتہ 76 سال سے ریاست بچانے میں مصروف ہیں جبکہ ایک بار 1971ء میں بُری طرح ناکام بھی ہو چکے ہیں۔ کیا ہماری کوئی نسل کبھی فخر سے کہہ سکے گی کہ ہم ایک عظیم پاکستان کے شہری ہیں؟ 2011ء کے بعد تواتر اور تسلسل کے ساتھ پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم جوئی نے جہاں پاکستان میں پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تو دوسری طرف عمران نیازی کی سرپرستی کرنے والے اپنے ہی پیدا کیے ہوئے ”جنات“ کے ہاتھوں ہونے والے نقصان کو ”پاکستان کا سیاہ دن“ قرار دے چکے ہیں۔ لیکن جن دماغوں میں صرف کچھ دلفریب نعرے، غیبی مددکی آس، تصوف کے ناقابل ِعمل پیچیدہ اور غیر منطقی تصورات اور متضاد و متصادم خیالات پرورش پا چکے ہیں انہیں کوئی بھی بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ سیاسی کے بجائے نفسیاتی معاملہ بن جاتا ہے۔
اِن حالات میں استحکام پاکستان پارٹی کا قیام عمل میں آیا ہے جس کے پیٹرن اِن چیف جہانگیر ترین اور مرکزی صدر عبد العلیم خان جبکہ مرکزی سیکرٹری جنرل عامر کیانی ہیں جو پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اور عمران نیازی کے قریبی ساتھی ہیں۔ اِسکے علاو ہ تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں کے بہت سے لوگ ابھی تک اِس نوزائیدہ سیاسی جماعت سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ جہانگیر خان ترین اور عبد العلیم خان سے میری ملاقات عمران نیازی نے کرائی جبکہ عامر کیانی کو میں تحریک انصاف کے پہلے دن سے جانتا ہوں۔ عبد العلیم خان سماجی حوالے سے بہترین انسان ہیں لیکن
سیاست میں اُن کا سب سے زیادہ نقصان عمران نیازی نے کیا۔ عبد العلیم خان نے تحریک انصاف بنانے کیلئے کسی فضول خرچ بچے کی طرح اپنی ہر صلاحیت اور وسائل عمران نیازی پر نچھاور کر دئیے لیکن وہ طاقت اور اختیار ملتے ہی بے نقاب ہو گیا۔ عمران نیازی نے بیک وقت تحریک انصاف کے اندر اپنے جانثار ساتھیوں کے ساتھ لڑائی بنائی اور تحریک انصاف کے باہر اُس کے شر سے کوئی مخالف سیاسی جماعت اوراُس کا اپنا کوئی ”مہربان ادارہ“ محفوظ نہ رہا۔ عبد العلیم خان کی سماجی خدمات پنجاب بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور مجھے یاد ہے کہ جب ہم جہانگیر خان ترین کا الیکشن لڑنے لودھراں گئے تو اِس دوران وہاں عام آدمی سے مل کر جہانگیر خان ترین کے بارے میں جاننے کا اتفاق ہوا تو جہانگیر خان بارے سماجی خدمات کا سن کر بڑی حیرت ہوئی۔ یہ الیکشن جہانگیر ترین نے بڑے مارجن سے جیت لیا اور اِس میں عبدالعلیم خان کی خدمات کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمران نیازی نے اپنی زندگی میں ایک ہی سچ بولا تھا ”تحریک انصا ف کو صرف تحریک انصاف سے ہی خطرہ ہے“۔ لیکن اُس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ خطرہ بھی وہ خود ہو گا۔ آج آئی پی پی میں شمولیت کیلئے تحریک انصاف کے سیکڑوں ٹکٹ ہولڈرز اور ہزاروں ورکرز عبد العلیم خان اور اُس کی ٹیم کے رابطے میں ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر لوگ اِس سیاسی تنظیم کو جوائن کر رہے ہیں لیکن آئی پی پی عمران نیازی کی طرح کسی کے گلے میں وفاداری کا پٹہ ڈال کر اُس کی تذلیل اور تشہیر نہیں کر رہی۔ عبد العلیم خان ایک باصلاحیت انسان ہے اور گزشتہ ”بزدار کرائسس“ میں بھی تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لیے صرف عبد العلیم خان کا نام تھا۔ وہ ذہین انسان ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی سماجی خدمات کو کبھی اپنی سیاست کا حصہ نہیں بناتا حالانکہ زندگی کے بہت سے شعبوں میں عام آدمی کیلئے اُس کی خدمات کا سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے۔ وہ تنظیم بنانے اور چلانے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے اور موجودہ سیاسی صورت حال میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف عمران نیازی اپنے بیانیے کو جس مقام پر لے گیا تھا اب اُس کے ورکرز کیلئے پی ٹی آئی یا عمران نیازی کی الیکشن میں عدم موجودگی کے بعد مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کو جوائن کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو چکا ہے۔ سو میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کا ورکر بڑی تعداد میں آئی پی پی کو جوائن کرے گا کیونکہ یہاں سب اُن کے وہ شناسا چہرے موجود ہیں جن کے ساتھ وہ پہلے بھی کام کر چکے ہیں سو انہیں آئی پی پی کے ساتھ چلنے میں کوئی شرمندگی ہو گی اور نہ ہی گلی محلے اور شہر میں کسی کی بات سننا پڑے گی۔ سو تبدیلی کا وہ خواب جس کا سلسلہ عدمِ اعتماد کے بعد عمران نیازی کے قومی اسمبلی میں نہ بیٹھنے، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسملیاں توڑنے کے غیر عقلی فیصلے سے سیاسی کارکنوں کی آنکھو ں میں ٹوٹ گیا تھا اس خواب کا سلسلہ وہیں سے شروع ہو گا جہاں سے یہ منقطع ہوا تھا کہ اب اِس خواب کے خاکے میں رنگ بھرنے والے ”مولا جٹ“ یا ”وحشی گجر“ جیسی فلمیں نہیں عملی انسان ہیں جنہوں نے اِس سماج کو ڈلیور بھی کیا ہے اور ابھی مزید ڈلیور کرنے کی بہت سی صلاحیتیں اُن میں پوشیدہ ہیں لیکن اِس کیلئے آئی پی پی کو جلد از جلد اپنی تنظیم سازی مکمل کرنا ہو گی تا کہ اُن کا ورکر گلی محلے میں کام کرتا دکھائی دے کیونکہ اس بار یہ الیکشن جہالت اور طاقت ایک شخص جیب میں رکھ کر نہیں لڑے گا!
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.