آقا کریمؐ نے تو اپنے گھر میں موجود آخری سات دینار بھی صدقہ کر دیئے۔ تو گویا پیغام کیا تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے دنیا میں گھر نہیں بنایا، ان کا کہنا تھا کہ بندہ گھر وہاں بنائے جہاں زیادہ عرصہ قیام کرنا ہو، محدود قیام کے لیے ایسا کرنا مناسب نہیں۔ بہرحال میری طبیعت آج اداس تھی کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔ دراصل یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ اسی دوران امریکہ سے روحانی شخصیت محترمہ تسنیم مالک کا فون آ گیا، اس کے بعد امریکہ میں ہی پیدا ہونے والی ذیلف ترین بہن کا میسیج آ گیا۔ ’لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین‘ قرآنی آیت مبارکہ ہی نہیں ہر شخص کی کہانی بھی ہے۔ ٭دین اسلام آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خطبہ اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک مکمل ہے باقی تمام باتیں زمینی ثقافت و تاریخ، اجماع و مصلحت کے حوالے سے وراثت میں ملی ہیں۔٭توحید پر ایمان صرف یہ نہیں کہ انسان اللہ کو ایک مانے بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا کسی کو شریک ٹھہرانا بھی توحید کی نفی اور شرک ہے۔٭موت کے خوف کی جگہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور مالک دو جہاں سے ملاقات کا شوق پیدا ہو جائے تو انسان ولی اللہ اور زندگی آسان ہو جاتی ہے۔٭انسان کے بس میں اتنا ہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے بس تسلیم کر لے۔٭اپنے منفی کردار کے بیجوں کی بوئی ہوئی فصل کاٹنا انسان کو سب سے برا اور تکلیف دہ عمل لگتا ہے۔٭ ”جان حاضر ہے“ کہنے والوں سے ان کی دولت کا صرف ایک فیصد ہی مانگ لیں تو وہ جان لینے کے درپے ہو جائیں گے۔٭انسانی عمل گنبد کی آواز ہے جو لوٹ کر آتی ہے، جیسی صدا اور آواز دی جائے گی ویسی ہی واپس کانوں کو آئے گی۔ ٭ دکھ کے چند لمحے سالہا سال کی عبادت کے مقابلے میں انسان کو کہیں زیادہ اللہ کے قریب کر دیتے ہیں۔ ٭ اس سے بڑھ کر کوئی سانحہ اور لطیفہ نہیں کہ ہر انسان موت اور انجام کی طرف بھاگ رہا ہے یہ سمجھ کر کہ وہ انجام موت پیچھے
چھوڑ آیا یا اس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔٭خدا کے بنائے ہوئے رشتے فطری طاقت اور انسان کے بنائے ہوئے رشتے بشری کمزوری کا مظہر ہوتے ہیں۔٭اس کائنات میں سب سے ناپائیدار صرف انسانی زندگی ہے اور جانداروں میں انسانی زندگی خواہشات اور حسرتوں کے سبب سب سے زیادہ عبرتناک انجام سے وابستہ ہے۔ ٭جس نے زندگی کو ناپائیدار اور فانی سمجھا اسی نے زندگی کا راز پا لیا۔ ٭زندگی کا حاصل وہ تذکرہ ہے جو بعد میں آنے والوں کے لیے چھوڑ دیا۔ ٭روح کا روح سے تعلق ہی دائمی ہوا کرتا ہے جس کے ابلاغ کے لیے کسی رابطے کی ضرورت نہیں۔ ٭جس بندگی میں خشو و خضوع اور مکمل حاضری اور عرفان نہیں وہ عبادت و ریاضت محض مشقت و عادت ہے یا زیادہ سے زیادہ فرض کی ادائیگی۔ ٭نیکی وہ ہے جو کسی کو بغیر استحقاق، خوف، لالچ کے سکھ، آسانی، سکون اور ضرورت میسر کر دی جائے، اگر کسی کا استحقاق ہے جو ادا کر دیا تو وہ فرض ہے، ادا نہ کرنا گناہ اور قرض ہے۔ ٭سکھ، دکھ، سکون، عزت، ادب، ذلت، عظمت، راحت رد عمل کی صورت میں لوٹتے ہیں۔ ٭شکوے کی صورت میں دل و دماغ اور شعور میں پیدا ہونے والے الفاظ، فقروں، خیالات اور احساسات کا اظہار نہ کرنا صبر ہے۔ کچھ کرنے کی ہمت و تدبیر ہونے کے باوجود خلاف نفس حالات کو قبول کرنا صبر کی معراج ہے اور اس پر شکر کرنا، تزکیہ نفس اور نفس مطمئنہ کی معراج ہے۔ ٭ پاس ہوتے ہوئے بھی اداس رہنا محبت و روحانی تعلق اور ہم آہنگی کا مظہر ہے جسے محبتوں کی معراج کہا جا سکتا ہے۔ ٭ زندگی کا راز اس کو فانی اور کردار کو لافانی جان لینے میں ہے۔ ٭ خاموشی میں ابلاغ ہونا محبت و ہم آہنگی کا نقطہ عروج ہے۔ ٭فطرت سے ٹکرانا بدنصیبی اور نتیجہ شکست و ریخت۔ ٭یوں تو لوگ عجز و انکساری کا زبانی دعویٰ کرتے ہیں اگر ان سے اتفاق کیا جائے تو غصہ کر جاتے ہیں۔ ٭خدا کسی عقاب کو غذا اور پناہ کے لیے کسی چرند پرند کے گھونسلے میں نہ لے جائے۔ ٭ دنیا کی ہر شے فانی ہے مگر ماضی لافانی ہے۔ ٭ ہر چیز پر قدرت ہو سکتی ہے بلکہ ہو گی لیکن ماضی پر نہیں۔ ٭ خدا کسی عقاب کو اتنا عاجز نہ کر دے کہ اس کو رزق و پناہ کی خاطر کسی زیردست پرندے کے گھونسلے میں جانا پڑے۔ ٭ انسان اپنے حسب نسب کے تعارف کے ساتھ دنیا میں آتا ہے اور اپنے کردار و عمل کی پہچان کے ساتھ اس دنیا سے جاتا ہے۔ ٭ عروج کو نہیں تکبر کو زوال ہے۔ ٭ جھکنے سے پھل نہیں بلکہ پھل لگنے سے درخت جھکتے ہیں۔
بہلول دانا جن کو لوگ دیوانہ اور صوفیا کرام دانا اور تاریخ سمجھتے ہیں، آج اپنی مرقد میں آرام فرما رہے ہیں۔ مگر ان کا سفر آج بھی جاری ہے۔ ایک داناؤں کی دنیا ہے اور دوسرے دنیا کے دانا ہیں۔ تارک الدنیا ہونا منع ہے مگر رغبت دنیا میں کثرت کی خواہش میں قبریں جا دیکھنے کو بھی دانائی نہیں سمجھا گیا۔ کئی بار انسان فرار چاہتا ہے مگر پھر اپنے آپ سے باتیں کر کے اطمینان کر لیا کرتا ہے۔ خود کلامی نعمت ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند باتیں پیش خدمت ہیں۔ بڑے بڑے دفاتر، بڑے بڑے نام، بڑے بڑے عہدے،بڑی بڑی کوٹھیاں، بڑے بڑے پروٹوکول،بڑے بڑے لوگ جو سمجھتے ہیں زمانہ ہماری مٹھی میں ہے، ہمارا نام زمانہ ہے، ان کے ناموں کی تختیاں قبروں کے کتبوں میں بدلے جا رہی ہیں۔ دنیا میں محنت مشقت اور معاملات کرنا، تارک الدنیا ہونے کی دین میں حمایت نہیں نہ ہی کائنات چل سکتی ہے لیکن چلتی کائنات میں اگر کوئی سمجھے کہ وہ اپنے ایکشن کا ری پلے نہیں دیکھ سکتا تو وہ ایکشن نہیں ہونا چاہئے۔ روز آخرت ری پلے کا نام ہے، وہ تو روز آخرت ہے میں نے دنیا میں ہی ری پلے ہوتے دیکھے ہیں۔ بڑے بڑے معتبر لوگوں کو، بڑے بڑے ایسے لوگوں کو ان کی زندگی میں ہی بے اثر اور ڈوبتے سورج کی لاشیں بنتے دیکھا ہے۔ اگر اپنے نصف النہار پر لوگوں کو تنگی، تلخی اور اذیت نہ دیں تو شاید ان کا زوال ان کے سامنے اذیت بن کر کھڑا نہ ہو۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.