مائنس عمران خان فارمولے کی باتیں یوں تو خاصے عرصے سے سننے میں آ رہی ہیں لیکن نو مئی کے روز پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں اب اس فارمولے پر عمل درآمد کی باتیں زیادہ شد و مد کے ساتھ کی جا رہی ہیں، عمران خان یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ مائنس ون فارمولا قبول کرنے پر آمادہ ہیں بشرطیکہ انہیں اس بات پر قائل کر لیا جائے کہ ان کے سیاست چھوڑنے سے ملک کا فائدہ ہو گا۔ پی ٹی آئی کے حامی حلقے اس تناظر میں ایک الگ فکر میں مبتلا ہیں،ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کی وجہ سے قائم ہے ان کے ہٹنے سے پارٹی کا پہلے والا پوٹینشل برقرار نہ رہ سکے گا (پی ٹی آئی کے مخالفین غالباً یہی چاہتے ہیں) عمران خان شاہ محمود قریشی کو اپنا جانشین مقرر کر چکے ہیں لیکن یہ سوال تا حال موجود ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہو گا؟
ایک اور بات بھی ان دنوں زیر بحث ہے کہ سپریم کورٹ (ریویو اینڈ جج منٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ سے نواز شریف اور جہانگیر ترین کے ساتھ کئی دیگر لوگوں کو سپریم کورٹ میں اپنی نا اہلی کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کرنے کا حق مل جائے گا۔ عوامی لیگ کے سربراہ سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ ایک نئے نافذالعمل ہونے والے قانون کے تحت مائنس عمران خان اور پلس نواز شریف فارمولا وجود میں آ سکتا ہے، اس نئی صورت حال میں ہمارے ملک کی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے یہ چند روز میں واضح ہو جائے گا، ممکنہ نئی صورت حال کے امکانات پر بات کرنے سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں کہ مائنس ون فارمولا ہے کیا اور پاکستان میں یہ اتنا مقبول و معروف کیوں ہے؟
میرے خیال میں دنیا میں جب کسی حکمران نے کسی دوسرے حکمران کو تخت سے محروم کیا ہو گا تو اس کے ذہن میں نا دانستہ طور پر مائنس ون والا فارمولا ہی کارفرما ہو گا لیکن یہ پْرانے زمانوں کی باتیں ہیں،آج ہم جدید دور میں جی رہے ہیں اور عوام جمہوری نظام کے تحت اپنے حال اور مستقبل کے فیصلے خود کرنے کے قابل ہو چکے ہیں تو مائنس ون فارمولا ایک زیادہ جدید منظم مرتب اور واضح معنوں کے ساتھ موجود ہے۔ اس کا مطلب مائنس ون فارمولے پر عمل کرنے کے خواہش مندوں کے مطابق یہ ہے کہ کسی حکومت جماعت گروہ یا نظام میں سے اگر ایک فرد کو (جو عام طور پر حکمرانوں کا نا پسندیدہ فرد ہوتا ہے) مائنس یعنی الگ کر دیا جائے تو بگڑتے ہوئے سیاسی حالات یا تناؤ کی شکار کسی صورت حال سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ ان کا ذاتی خیال ہوتا ہے اس کے نتیجے میں حالات بہتر ہوتے ہیں یا نہیں صورت حال میں بہتری کی کوئی کرن روشن ہوتی ہے یا نہیں اس کے بارے میں حتمی طور پر خواہش مند بھی وقت سے پہلے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ میں نے اپنے کسی گزشتہ کالم میں Political Apology کی بات کی تھی، مائنس ون فارمولے کے حامی شاید اسے بھی پولیٹیکل اپالوجی کی ہی ایک شکل سمجھتے ہوں کہ اگر محض ایک فرد پارٹی نظام یا گروہ سے الگ ہو جائے تو باقی نظام کو پہلے ہی کی طرح چلتا رہنے دیا جا سکتا ہے یا اس سے بہتر انداز میں چلایا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے بین الاقوامی سیاست میں بھی مائنس ون فارمولے پر عمل درآمد ہوتا رہا ہو لیکن پاکستان میں تو یہ بیانیہ ایک اصطلاح کی شکل اور حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ سیاست دانوں خصوصاً سیاسی جماعتوں کے سربراہوں یا جمہوری طور پر منتخب وزرائے اعظم کو مائنس کرنے کی کوششوں سے بھری پڑی ہے۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کئے بنا گزارہ نہیں کہ سیاسی جماعتوں یا جمہوری حکومتوں کے سربراہوں کو مائنس کرنے یا مائنس کرنے کی کوششوں کے حوالے سے جو کچھ بھی ہوتا رہا اس میں خود سیاسی قوتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مائنس ون فارمولا ہی تھا جس کی وجہ سے جمہوریت بار بار پٹڑی سے اترتی رہی معاملات ہاتھ سے نکلتے اور پھر نئی کوششوں سے گرفت میں آتے رہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاست دان ماضی سے سبق حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور ہر دور میں مائنس ون کا فارمولا آ جاتا ہے۔
اس بارے میں کسی نتیجے تک پہنچنے کے لئے کچھ سوچ بچار کچھ غور و فکر کچھ بحث مباحثے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کو16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ عوام سے خطاب کر رہے تھے تو کیا اس کے پیچھے پاکستان کے دشمنوں کا مائنس ون کا کوئی فارمولا کارفرما تھا؟ یا گورنر جنرل غلام محمد نے جب 1953ء میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت برطرف کی یا 1954ء میں دستور ساز اسمبلی برخواست کر دی اور جسٹس محمد منیر نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف گورنر جنرل کا فیصلہ برقرار رکھا تو کیا یہ پاکستان میں مائنس ون فارمولے کا آغاز تھا؟ یا کیا اسے مائنس آل پلس ون فارمولے کا نام دیا جا سکتا ہے؟ یا صدارتی انتخاب کے حوالے سے جب فاطمہ جناح کے خلاف مہم چلائی جا رہی تھی تو کیا وہ مس فاطمہ جناح کے لئے مائنس ون کی کوشش تھی؟ یہ واضح ہے کہ 1970ء میں شیخ مجیب کو مائنس ون کرنے کی کوشش میں ہم مشرقی پاکستان مائنس کر بیٹھے تھے۔
صدر ضیاالحق نے سوچا ہو گا کہ اگر بھٹو کو مائنس کر دیا جائے تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن سب نے دیکھا کہ بھٹو کا بیانیہ آج بھی زندہ ہے۔ صدر ضیاالحق نے ملک سے جماعتی سیاست کو مائنس کرنے کی کوشش کی تھی لیکن جماعتیں بھی باقی ہیں اور ان کی سیاست بھی۔ مائنس ون کا فارمولا نواز شریف پر شاید سب سے زیادہ بار استعمال کیا گیا، پہلی بار 1993ء میں (تب یہ فارمولا مائنس ون کے بجائے مائنس ٹو فارمولا بن گیا تھا) دوسری بار 1999ء میں اور تیسری بار 2018 ء میں لیکن نواز شریف کا بیانیہ اور سیاست آج بھی جاری ہے۔ ان کے مائنس نہ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ آج ان سے موسوم پارٹی برسرِ اقتدار اتحاد کابڑا حصہ ہے۔ جنرل مشرف جب اپنے اقتدار کے عروج پر تھے تو انہوں نے یقین کر لیا تھا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کو مائنس کر دیا ہے لیکن بعد ازاں جب حالات بدلے تو پرویز مشرف خود مائنس ہو گئے۔
اس سارے تناظر میں غالباً یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایسے فارمولے کسی بھی مقبول سیاسی راہنما اور جماعتوں کو وقتی طور پر ہی مائنس کیا جا سکا ہے،حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی وہ راہنما اور سیاسی جماعت دوبارہ اور زیادہ طاقت سے سامنے آ جاتے ہیں مگر اس سے جمہوریت بھی کمزور ہوتی ہے اور نظام بھی مگر ہمارے ہاں آج تک اس سے سبق حاصل کیا گیا نہ ہی سیاسی جماعتوں اور راہنماوں کو اس کی سمجھ آ سکی ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.