سانحہ 9 مئی پر لاہور کے ادباء و شعراء کا شدید ردعمل

91

کسی بھی ملک، قوم اور زبان کے شاعر اور ادیب معاشرے کے معمار ہوا کرتے ہیں۔ یہ وہ منتخب لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کو خوبصورت خیال دیتے ہیں۔ اپنی جمالیات سے معاشرے کی تزین و آرائش کرتے ہیں۔ ہماری خارجی دنیا میں بھی جہاں حسن نظر آئے اسے عام لوگوں کی نسبت زیادہ شدت سے محسوس کر کے دوسروں تک اس حسن کو موثر وضاحت سے پیش کرتے ہیں۔ یہ تخلیق کار جس مہارت سے معاشرتی برائیوں کی جراحت کرتے ہیں اور ناسوروں کی نشاندہی کرتے ہیں بڑے سے بڑا ماہر سماجیات نہیں کر سکتا۔ بدنصیبی دیکھئے کہ کمرشلزم کی وبا نے پوری دنیا میں تخلیق کار کو نشانہ بنایا ہے اور حقیقی تخلیق کار کی جگہ دو نمبر تخلیق کار جنم دیے ہیں جنہیں قد آور بنا کے ایک طرف اعلیٰ دماغ قارئین کو دھوکہ دیا جاتا ہے اور دوسری طرف معاشرے کو حقیقی تخلیقی سچائیوں سے محروم رکھ کر سطحیت کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں پوری دنیا میں وقوع پذیر پایا گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہمارا جینوئن ادیب اس پر ردعمل دے۔ آج پاکستانی قوم، ملک اور ادارے تلوار کی دھار پر چل رہے ہیں۔ یہ بھی صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ نظام ریاست، ریاست کے ذمہ داروں کے ہاتھ سے پھسلتا جا رہا ہے اور کسی کو اس کا احساس نہیں۔ ایک وقت تھا جب ہمارے فوجی محاذوں سے لوٹتے تھے تو لوگ سڑکوں پر آ کر ان کی جیپوں کے بوسے لیتے تھے جبکہ آج شہداء کی یادگاروں کا تقدس مجروح کیا گیا اور فوجی گاڑیوں پر ڈنڈے برسائے گئے۔ بحیثیت شاعر میں یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں کہ کسی کی محبت، فرض شناسی اور جذبہ ایثار کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنی جان وطن پر نچھاور کر دے۔ لیکن آج صاف ظاہر ہے ہم اس احترام کی نفاست سے ہی محروم کر دیے گئے ہیں۔ میں نے پچھلی تین دہائیوں سے ایسے ہی شاعروں
اور ادیبوں کو معزز پایا ہے جن کو بڑی نوکریوں کے حصول، مشاعروں پر قبضے اور منافع بخش جشن اور فیسٹیول کرانے سے ہی فرصت نہیں۔ چالاک اور دو نمبر لوگوں کے نیٹ ورک ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ سے ہر جینوئن شاعر ادیب کو پیچھے دھکیلنے اور مصنوعی ادب کی مٹی کو سونا بنا کر پیش کرنے کو قابل فخر عمل بنا کر اتراتے پھرنے والے لوگوں کی طرف سے حرام ہے کہ کبھی دکھی انسانیت کا احساس اور سیاسی بحرانوں سے پیدا ہونے والے اضطراب کا شعور سامنے آیا ہے۔ انسانی اور سماجی شعور سے محروم خیال چور شاعر استاد بن کر نئی نسل کو تباہ کرنے پر تلے رہتے ہیں اور ملک و قوم پر کوئی بُرا وقت آتا ہے تو کچھاروں میں چھپ کے بیٹھ جاتے ہیں کہ جی ہم تو غیر سیاسی ہیں ہمارا کیا کام۔ لیکن فطرت کے عمل کا بھی ایک اپنا نظام ہے جو جھوٹ کے طوفان اور جعلسازی کی گرمی ِ بازار میں سچائی اور اصلیت کو زندہ رکھتا ہے۔۔ پچھلے دنوں اس کا ثبوت سامنے آیا اور حلقہ ارباب ذوق کے زیر اہتمام لاہور کے نامور شعراء اور ادبی تنظمیوں حلقہ ارب خیال، سیوا شعر و ادب سسائٹی، تخیل، گلیکس انٹرنیشنل، اردو مرکز، تحریک احیائے اردو، بزم منیر نیازی اور ماہنامہ بیاض کے منتظمین نے سوختہ جناح ہاؤس کا دورہ کیا۔ شرکاء نے جناح ہاؤس و دیگر عسکری تنصیبات و املاک خصوصاً شہداء کی یادگاروں کو نقصان پہنچانے کی شدید مذمت کی اور شرپسندوں کو امن دشمن قرار دیا۔ شعراء اور ادباء نے وطن کے نظریاتی محافظ ہونے کی حیثیت سے موجودہ ملکی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اس حوالے سے انتہائی سنجیدگی اور دانائی سے کام لینے کی اپیل کی۔ شرکاء میں سینئر شاعر و ایڈیٹر اعجاز رضوی، منصور آفاق، شفیق احمد خان، علی نواز شاہ، ڈاکٹر یونس خیال، ڈاکٹر حسن فاروقی، ڈاکٹر پروفیسر عطاء، عرفان صادق، یوسف علی یوسف، خالد ندیم شانی، راول حسین، سید ذوالقرنین، ہمایوں پرویز شاہد، طلحہ غفور، ڈاکٹر عدیل احمد عامر، فیصل زمان چشتی، فرحت عباس شاہ اور دیگر شامل تھے۔ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر خالد عطاء اور اعجاز رضوی نے اپنا کلام سنا کر اپنے قومی درد کا اظہار کیا اور میری طرف سے یہ نظم قبول فرمائیے کہ شاعر کے پاس سب سے قیمتی شے اس کا کلام ہی ہوتا ہے۔
مرے وطن تجھے کس واسطے بنایا گیا
نہ رزق ِ حق ہے میسر نہ راہ ِ حق گوئی
نہ کوئی عزت ِ شعراء نہ حرمت ِ شہداء
نہ آبروئے معلم نہ غیرت ِ شمشیر
انا فروش شہنشاہ ہنہناتا ہے
مرے چمن کے پرندوں کو بھی ڈراتا ہے
عدالتوں پہ لپکتے ہیں دو ٹکے کے وزیر
یہ پونڈز بھیج کے لندن بہت چہکتے ہیں
ہمارے بچوں کی لاشوں پہ بھی قہقہے ہیں
صحافیوں کے لبادوں میں زرخرید غلام
کمال مکر سے خبریں اچھالتے ہوئے منہ
سپاہ جیسے ترے باسیوں پہ نافذ ہے
ہے لگ رہا مجھے لاہور خطہئ کشمیر
محافظوں میں حفاظت کی خُو نہیں باقی
درندے دوڑتے پھرتے ہیں دندناتے ہوئے
بتایا جاتا ہے مجھ کو کہ تُو نہیں باقی
کسی میں بھی وطنیت کی خُو نہیں باقی
مرے وطن تجھے کس واسطے بنایا گیا
تجھے بنایا گیا تھا کہ ظلم راج کرے
یہ سر اٹھائے پھریں سر نگوں سماج رہے
مرے لیے تو یہاں قبر تنگ کی گئی ہے
پتہ چلا ہے کہ مجھ سے ہی جنگ کی گئی ہے
ہمارے قائد ِ اعظم کا گھر جلایا گیا
اور اس کے بعد بہت ظلم بھی کمایا گیا
سبھی عوام پہ اک حشر ہے اُٹھایا گیا
تمہارے نام پہ میدان ہے سجایا گیا
تمہارے نام پہ چاروں طرف سے مل کے مجھے
کبھی سلایا گیا ہے کبھی جگایا گیا
مرے وطن تجھے کس واسطے بنایا گیا

تبصرے بند ہیں.