لادینئ افکار

86

گلوبل ولیج بن جانے کا ایک فائدہ یا نقصان یہ ہے کہ ہر بات سانجھی ہوگئی۔ کوئی راز چھپا نہیں رہتا۔ ہر ملک کے مسائل سارے جہاں اور ہر کہ و مہ کی زبان پر ہوتے ہیں۔ اگرچہ ساری دنیا ہتھیلی پر ہے۔ موبائل کی اسکرین پلک جھپکتے میں شرق تا غرب کی ساری آبادیاں سامنے لا کھڑی کر دیتی ہے۔ گپ شپ کے سارے مواقع ہمہ وقت فراواں ہیں۔ پھر بھی دنیا بھر میں تنہائی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے اور کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ رپورٹ یہ ہے کہ امریکا میں لاکھوں لوگ عذابِ تنہائی کا شکار ہیں۔ تنہائی بھوک پیاس کی مانند ایک احساس ہے جس سے روح تڑخ تڑخ کر العطش، العطش (پیاس، پیاس) پکارتی اور محرمِ راز تلاش کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں درج ہے کہ گزشتہ 60سالوں کے دوران امریکا میں تنہا افراد والے گھر دوگنا بڑھ گئے ہیں۔ خصوصاً وہ لوگ جو عبادت گاہوں، خاندانوں، تنظیموں سے کٹے ہوئے ہیں، تنہائی انہیں نگل جاتی ہے۔ تنہائی کے مارے ممالک میں دس بڑے ممالک امریکا، برطانیہ، کینیڈا، روس، اٹلی، جاپان، سویڈن بھی شامل ہیں، اپنی تمام تر ترقی اور سہولتوں کی چکاچوند کے باوجود یہ انسانی، معاشرتی زندگی کی سطح پر غربت (اجنبیت) کا شکار ہیں!
چین کے مسائل کی جو صورت انسانی سطح پر معاشرتی طور پر اب درپیش ہے وہ ’دلہن کی تلاش‘ ہے۔ تفصیل ذرا تفصیل طلب ہے۔ بھارت کی آبادی چین کے مدمقابل کھڑی ہے، بلکہ تقریباً 30لاکھ زیادہ ہوچکی ہے۔ 1.4286ارب ہے۔ گویا سوچیں، تو یہ دونوں ہمسائے تقریباً 3ارب آبادی لیے زمین کو ایک طرف کو جھکائے دے رہے ہیں (تصوراتی اعتبار سے!) تاہم چین کو اپنی ایک بچہ پالیسی (1980ء2015-ء) لے ڈوبی۔ اس پر سختی سے کاربند ہونے سے سبھی کچھ درہم برہم ہوگیا۔ یہ بھی ہوا کہ تمام تر ترقی پسندی کے باوجود قوم کی ترجیح لڑکا تھی، بہ نسبت لڑکی کے۔ سو لڑکیاں زندہ دفن ہوتی رہیں دورانِ حمل اسقاط کر دینے کے ہاتھوں، قبل ازیں پیدائش۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 3کروڑ مرد عورتوں کی نسبت تعداد میں زیادہ ہیں۔ (کینیڈا کی آبادی کے برابر!) قوانین فطرت سے، اللہ سے جنگ کے ہاتھوں۔
صنفی تفاوت کے ہاتھوں اب چوہے لنڈورے ہو جانے والی صورت حال بن گئی۔ دلہن کہاں سے آئے؟ وہی دلہن جس کی قدر وقیمت (چینی رسم میں جو Caili کہلاتی ہے) 1970ء میں سائیکل یا کپڑوں کا ایک جوڑا ہوا کرتی تھی، اب گاڑی، سونے کے زیورات، جائیدادوں تک جا پہنچی۔ کم وبیش 10سال کی فارم پر کمائی کے برابر ہوگئی تھی 2001ء تک۔ اور اب تو حکومت اس پر پابندی عائد کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے، کیونکہ شادی ایک گھمبیر مسئلہ بن گئی ہے۔ دلہن حاصل کرنے کے لیے چینی اب اچھے مکانوں میں سرمایہ کاری کرنے لگے ہیں۔ والدین اپنے بیٹے کا گھر آباد کرنے کے لیے یہ فارمولا اپنانے لگے ہیں۔ محاورتاً یہ کہا جانے لگا ہے کہ (نادر الوجود Phoenix دیومالائی) ’پرندہ پکڑنے کو گھونسلا بنانا‘!
اس رپورٹ کا لکھاری کہتا ہے کہ میں 2009ء میں چین کے ایک ’کنواروں کے گاؤں‘ میں گیا، جہاں شادی کے لائق کوئی عورت نہ تھی۔ دلہن حاصل کرنا گویا ایک حسین خواب بن گیا۔ (مغرب ’دلہن دشمن‘ ہوکر بحرِ مردار کے متعفن پانیوں میں غوطے کھا رہا ہے۔) گھر حاصل کرنے کو مرد Mortgage گروی کی قسطیں ادا کرتے دوہرے ہوگئے۔ پھر یہ بھی تو ہوا کہ دلہناپے کی قیمت Cailiوصول کرکے دلہنیں دوڑ گئیں! مرد تنہائی، ٹوٹ پھوٹ اور ذلت کا شکار۔ اب ایک باپ کہنے لگا: کاش میری بیٹیاں ہوتیں! وہی باپ جو بیٹیوں کے شوق میں بچی دنیا میں آنے سے روکتے رہے۔
یہ تمام شاخسانے فطرت میں دخل اندازی، انسانی عقلِ عیار کے دھوکے میں آکر الٰہی رہنمائی سے منہ موڑکر خود خدا بن بیٹھنے کے ہیں۔ آج دنیا چکرائی پڑی ہے۔ اب چین اپنی آبادی کی بحالی کو مزید گمراہیوں، فساد کے دروازے کھول رہا ہے۔گرتی شرحِ آبادی، بوڑھوں کی حد سے بڑھی ہوئی تعداد۔ شادی اور بچے پیدا کرنا ایک خواب۔ آبادی کیونکر بڑھے؟
یورپ اور جاپان کو بھی گرتی شرحِ آبادی کا ایسا ہی سامنا ہے۔ مرد وزن بچے پیدا کرنے، گھر بسانے سے خائف، عیش پرستی کی دلدل میں دھنسے ہیں۔ اب نئی پالیسی یہ بنی کہ شادی چھوڑو، شیور فارمولے پر بچے پیدا کرو۔ حلال وحرام سے بے نیاز، بے خدا تہذیب میں بھی غیرشادی شدہ ماں کو چینی معاشرے میں بھی بری نگاہ ہی سے دیکھا جاتا تھا۔ مگر اب اچھی بری نگاہ، بصیرت، بصارت تو تعلیمی نظام، ملازمتوں، حکومتوں نے گروی کر رکھی ہے۔ سو اب غیرشادی شدہ لڑکیاں قوم کے لیے اولاد پیدا کرنے کو لیبارٹری سے نامعلوم باپ کے ذریعے جنین حاصل کرکے رحم میں رکھوائیں گی۔(یعنیIVF۔)اس طرح وہاں بچے پیدا کرنا صنعت کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔
اصطلاحات میں IVF مارکیٹ، اس کا اتار چڑھاؤ، IVF انڈسٹری کا ذکر ہوتا ہے۔ انڈے چوزوں کی مارکیٹ کا سماں بن رہا ہے! منظر نامے میں نہ ماں کا وجود ہے نہ باپ کا۔ دو اجنبی مادے ٹسٹ ٹیوب میں بلانکاح یکجا ہوکر ایک مصنوعی غیرحقیقی، رشتوں سے ماوراء ’انسان‘ کی بنیاد رکھیں گے۔ جس رحم میں پرورش پائے گا وہ ماں ہوگی مگر یہ بھی تو لازم نہیں کہ بیضہ اسی عورت کا ہو! فتنہئ دجال پوری انسانی زندگی کو ہمہ جہت اپنی لپیٹ میں یوں لے گا، کس نے سوچا ہوگا۔ تمام انسانی رشتوں کا درہم برہم ہو جانا۔ ہمارے تصور حیات کی پاکیزگی، تقدس، حدود وقیود، اللہ کے کھونٹے سے بندھے اصول وضوابط کے پابند ہونے کا نظریہ ایک الگ جزیرے کی کہانیاں ہیں۔
آج دنیا ایک بہت بڑے بحرِ مردار کا سماں پیش کر رہی ہے جس میں ذی حس، ذی حیات کہاں باقی رہ گئے۔ مصنوعی ذہانت، روبوٹ، مصنوعی غیرحقیقی رشتے یا سسکتی تنہائی! یہی معرکہئ ایمان ومادیت ہے جس کے کشتگان 2001ء کے بعد جم کر دوبدو کھڑے ہونے کی پاداش میں میزائلوں ڈرون حملوں کی بھینٹ چڑھے یا گوانتامو، ابوغریب، بگرام میں آزمائے گئے ملکوں ملکوں یا ڈالروں کے عوض خریدے بیچے گئے منڈیوں میں۔ یہ منڈیاں، میڈیا، جمہوری ایوانوں، نظامہائے تعلیم سے دجالی لشکروں کی تیاری کے لیے سجائی اٹھائی گئیں۔ ایک سیکولر مزاج کالم نگار نے شیور مرغے مرغیوں پر پھبتی کسی تھی: ’بے حیا مرغیوں کے حرام انڈوں کی اولاد‘ تو حیرت ہوئی تھی کہ اسلامیت بہرطور ایک حساسیت اندر رکھ دیتی ہے۔ نجانے وہ اب نوزائیدہ چینی بچوں کو کیا القاب دیں گے! تاہم یہ کہانی ہمارے سیکولر مزاج دانشوروں کے لیے لمحہئ فکریہ ضرور ہے جو ہمہ وقت پاکستان کی آبادی کو کوستے، عورت کو ترقی کے عنوان سے گھر سے بے گھر کرکے گلی گلی، دفتر، بازار دنیا کمانے میں کھپا ڈالنے کے درپے رہتے ہیں۔
اسلام کا حیات بخش نظام معاشرے کے ہر جزو، مرد، عورت، بچہ، حکمران، عوام، عدالت، سیاست کو برمحل رکھنے کا نام ہے۔ اسی کو ’حکمت‘، دانائی بھی کہا جاتا ہے۔ اسلام سر تا پا سراپا حکمت ہے۔ الحکیم رب کا نظام، قرآن حکیم کے ذریعے اپنے حکیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت نے برسر زمین جنت کا ذائقہ چکھ لیا۔ جس سرزمین پر اسلام نے قدم رکھا، پوری پوری آبادیاں ازخود، بلاجبر واکراہ اسلام کے حیات بخش، پرسکینت دائرے میں داخل ہوگئیں حلقہ بگوشِ اسلام ہوکر! آج بھی دنیا کی فلاح وصلاح اسی سے وابستہ ہے۔ تاہم گھر، خاندان کے بکھرنے سے معاشرتی ابتری دیکھتی دنیا پوری ڈھٹائی سے افغان عورت کے درپے ہے ’حقوق‘ کے نام پر۔ وہ اسے بھی بے گھر، بے در، بے اولاد کرنے (اور بعد میں ہاتھ ملتے رہ جانے پر مجبور ہو جانے) کے درپے ہے۔ حتیٰ کہ بند کمروں میں سر جوڑے ایسے ہی 20ممالک (بشمول چین، جاپان، امریکا، یورپی یونین!) دوحہ اجلاس میں افغان عورت پر مرثیہ خوانی کرتے رہے۔ ان کی تعلیم اور ملازمتوں کا غم کھاتے! (اگرچہ اصل مسئلہ تو ان کے پردے اور حیا کا ہے!)
یہ عورت وہ ہے جس نے 20سالہ جنگ میں اپنے صبر وایثار سے جگر گوشے افغان روایات، دین ایمان کے تحفظ پر قربان کیے اور انسانی تاریخ میں شجاعت واستقامت کی بے مثل طرح ڈالی۔ یہ سر جوڑ بیٹھنے والے شکست خوردگان اب صرف اپنے زخم چاٹ رہے ہیں! مغرب میں ’فیمنزم‘ کا زہر عورت کو گھن بن کر چاٹ گیا ہے۔ اب وہ صرف زن سے نازن نہیں ہوئی، نری نازنین یا نیم مرد بن چکی ہے۔ ادھر مرد بھی اوصافِ مردانگی کھو چکا ہے۔ یہ انسان اب صرف ایک حیاتیاتی (Biological) وجود ہے، روح، روحانیت سے تہی دامن، سراپا نفسانیت۔
مردہ لادینئ افکار سے افرنگ میں عشق
عقل بے ربطیئ افکار سے مشرق میں غلام

تبصرے بند ہیں.