بھارتی میڈیا کس بات کی خوشی منا رہا ہے؟

87

انہیں دہشت گرد کہیں، بلوائی کہیں، فسادی کہیں یا سیاسی کارکن کہیں، یہ لوگ جو بھی تھے لیکن اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ انہوں نے گزشتہ چار روز میں وطن عزیز کے ہر ہر شہر میں جو تماشہ لگا یا ہے اس کی سال 1971 میں مکتی باہنی تحریک کے بعد کوئی بھی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان مخالف تحریک میں مکتی باہنی کی کھلے عام سرپرستی کون کرتا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور پھر یہ اندرونی دشمنوں کی سپورٹ ہی تھی کہ جس کی وجہ سے دشمن کو مداخلت کے لیے حوصلہ ملا اور نتیجہ میں وطن دو لخت ہو گیا۔
گزشتہ روز انٹرنیٹ کی بحالی کے بعد بین الاقومی میڈیا پر پاکستان میں پیدا کی جانے والی ہیجانی کیفیت کے بارے تبصرے اور ٹاک شوز وغیرہ دیکھنے کی کوشش کی تاکہ اندازہ ہو سکے کہ وہاں اس قسم کی صورتحال پر کس قسم کی سوچ پائی جاتی ہے۔ یقینا اس قسم کی ہلڑ بازی اور لوٹ مار ایک ناپسندیدہ عمل ہے لیکن توقعات کے عین مطابق بھارت اور یہودی لابی نے اس صورتحال پر کچھ زیادہ تنقید نہیں کی بلکہ بعض کالم نویسوں اور اینکر پرسن نے تو پاکستان میں اس قسم کی صورتحال پیدا ہونے پر خاصی مسرت کا اظہار کیا۔
ماضی میں ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو ایوان اقتدار سے رخصت کیے جانے پر یہودی لابی کے ایک ستون، برطانوی کابینہ کے رکن اور عمران خان کے سابق رشتہ دار زیک گولڈ سمتھ خاصے نالاں نظر آئے اور خان صاحب کے حق میں سوشل میڈیا پر پیغامات بھی جاری کرتے رہے، جن کے بارے میں بعد ازاں برطانوی حکومت کو وضاحت کرنا پڑی اور اس قسم کے پیغامات سے لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑا۔
آج اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سے مسٹر گولڈسمتھ کا بیان نظر سے گزرا۔جس میں انہوں نے پاکستان میں تین دن تک جاری رہنے والی ہلڑ بازی اور لوٹ مار کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے عمران خان سے عقیدت اور محبت کا اظہار کیا ہوا تھا۔ حیرت انگیز طور پر انہوں نے عمران خان کی زیر نگرانی بننے والے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ میں ہونے والی میگا کرپشن اور اسلام آباد میں سینکڑوں درختوں کو آگ لگائے جانے کے واقعہ کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے عمران خان کو ماحول دوست سیاسی راہنما قرار دیا۔
یہودی لابی کی جانب سے عمران خان کی سرپرستی تو خیر ایک الزام ہے لیکن اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ لندن کے میئر کے لیے ہونے والے انتخابات میں ہمارے عمران خان صاحب ایک مسلمان امیدوار کے مقابلہ میں زیک گولڈ سمتھ کی انتخابی مہم چلانے کے لیے خصوصی طور پر پاکستان سے لندن گئے تھے۔
پاکستان میں تین دن تک جاری رہنے والی لاقانونیت پر بھارتی میڈیا میں بھی خوشی کہ لہر دوڑ چکی ہے۔ اور بھارتی میڈیا کے بقول عمران خان کے بیانات اور حکمت عملی کی وجہ سے بھارت میں ان کی مقبولیت کا گراف کافی اوپر گیا ہے۔
ایک بھارتی ٹی وی چینل پر ہونے والی گفتگو میں ایک بھارتی صحافی کہہ رہے تھے کہ بھارت کی خواہش ہے کہ عمران خان دوبارہ پاکستان کے وزیر اعظم بنیں، کیونکہ آج تک ان کی وجہ سے بھارت کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں بہنچا۔بقول بھارتی صحافی کے اگر عمران خان نے کسی کو نقصان پہنچایا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے۔ اور چونکہ ہم پاکستان کو اپنا دشمن ملک تصور کرتے ہیں اس لیے ہمیں ایسے اقدامات پر خوش ہی ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے سعودی عرب، عمان، متحدہ عرب امارات وغیرہ سے پاکستان کے تعلقات متاثر ہوئے جس کا بلاشبہ فائدہ بھارت کو ہوا ہے۔ انہی صاحب کا کہنا تھا کہ، ’ہم کسی بھی ایسے شخص کی حمایت کیوں کریں کہ جس کی وجہ سے پاکستان مضبوط اور خوشحال ملک بنے۔ ہمیں تو عمران خان جیسا لیڈر پسند ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے عوام میں تقسیم پیدا ہو، اقتصادی صورتحال مزید بگڑے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی افوج، جن کی کوششوں نے ملک کو یکجا رکھا ہوا ہے، پر نا صرف الزامات لگیں بلکہ اس کے افسران اور تنصیبات پر حملے ہوں‘۔
پاکستان تحریک انصاف نے اگرچہ عمران خان کی گرفتاری کے نتیجے میں ہونے والی توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور دہشت گردی سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے لیکن اس قسم کی کارروائیوں اور ان میں شریک افراد کی مذمت تک نہیں کی۔ عمران خان صاحب نے تو صورتحال سے مکمل طور پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، ’میں تو زیر حراست تھا۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے‘۔
اب جانے کون ہو گا جو عمران خان کی اس توضیع کو تسلیم کرے کیونکہ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں جب خان صاحب اپنی ممکنہ گرفتاری کے نتیجہ میں پھیلنے والی تباہی کے بارے میں حکومت کو ّگاہ کیا کرتے تھے۔ جس منظم طریقہ سے سرکاری املاک کو نشانہ بنایا گیا اس سے یہ بات تو بالکل واضع ہے کہ جو کچھ ہوا اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی موجود تھی اوربلوائی کہیں نا کہیں سے ہدایات بھی حاصل کر رہے تھے۔
اس کے علاوہ ایک طرف تو عمران خان صاحب ملک میں ہونے والی دہشتگرد کاروائیوں سے لاتعلقی اور ان کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے رہے ہیں تو دوسری طرف گزشتہ روز جب ان کی ضمانت منظور ہو جانے کے باوجود سکیورٹی خدشات کے باعث انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں شک گزرا کہ انہیں کسی نا کسی مقدمہ میں دوبارہ نہ دھر لیا جائے تو اس صورتحال میں ان کی جانب سے جاری ہونے والا بیان خاصہ دلچسپ تھا اور ایک ہی جملہ بہت سی باتوں کی وضاحت کر گیا۔
موصوف اپنی گفتگو کی روانی میں یہ بھول گئے کہ چند گھنٹے پہلے وہ کیا فرماتے رہے ہیں اور دھمکی آمیز لہجے میں فرمانے لگے کہ، ’اگر مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا تو پہلے سے زیادہ ردعمل آئے گا‘۔ یعنی یہ تسلیم کیا کہ پہلا ردعمل بھی ایک پلاننگ کا حصہ تھا اور دوسرے ردعمل کے لیے بھی پلاننگ اور تیاریاں موجود ہیں۔
میرے ذاتی خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ امن واماں کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ کون کیا کہے گا یا وقتی طور پر کتنا نقصان ہو گا حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کو پوری قوت کے ساتھ میدان میں آنا چاہیے اور ہر قسم کی سرکشی اور ریاست دشمنی کو آہنی ہاتھ کے ساتھ کچل دینا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.