قیام پاکستان کے پچھتر برس مکمل ہونے پر پچھتر روپے کا کرنسی نوٹ جاری کر کے سمجھ لیا گیا کہ پاکستان کی بہت بڑی خدمت انجام دی گئی ہے جبکہ حقیقی آزادی کے نعرے کی آڑ میں ملک کو بربادی کے دھانے پر پہنچانے والے دشت گردوں پر آہنی ہاتھ ڈالنے کے بجائے اس جرم عظیم میں گرفتار دہشت گردوں کو ناصرف آزاد کیا گیا بلکہ ان کے جتھوں کو سرحد پار سے لا کر پاکستان میں آباد بھی کیا گیا پھر فخریہ اس بات کا اقرار کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔
ان تخریب کاروں نے اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح کے گھر کو نذر آتش کر دیا جنہوں نے بے سرو ساماں اور عزت کی زندگی سے محروم لوگوں کو آزاد وطن دیا تا کہ وہ آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں۔ لاہور میں جناح ہاؤس جو پاکستان آرمی کے کور کمانڈر کی رہائش گاہ ہے۔ اس میں دندناتے ہوئے دہشت گرد مکینوں کی تلاش میں تھے اور انہیں زندہ جلا دینے کی منصوبہ بندی کر کے آئے تھے۔ لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں تخریب کاروں کے جھتے سرکاری اور پرائیویٹ املاک میں لوٹ مار اور آگ لگاتے نظر آئے۔ یہ سب کچھ تحریک انصاف کی اعلیٰ ترین قیادت کے ایما پر ہوا جس کے ماتھے پر لگا یہ سیاہ ترین داغ کبھی نہ دھل سکے گا۔
تخریب کاری کا آغاز عمران خان کے اس پیغام سے ہوا جو انھوں نے ہائیکورٹ میں پیش ہونے سے قبل جاری کیا انہوں نے اس میں افواج پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بذات خود گرفتاری اور موت سے نہیں ڈرتے لیکن آئی ایس پی آر صاحب، آپ اور ڈرٹی ہیری سوچیں، پھر انھوں نے اپنا وہ پیغام دہرایا جو وہ طویل عرصہ سے قوم کو سڑکوں پر نکلنے ملک کو مصر اور سری لنکا بنانے کیلئے دیتے چلے آئے ہیں۔
عمران خان اپنی سیاست شروع کرنے کے بعد سے قوم کو دیانت داری اور امانت داری کی کہانیاں سناتے رہے مگر وقت نے ثابت کیا کہ ان کا دامن ان اوصاف سے خالی تھا وہ چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے اور حضرت عمرؓ کے کرتے کے حساب کا واقعہ ہر دوسرے دن سنایا کرتے تھے لیکن جب ان سے حساب مانگا گیا تو وہ جتھوں کے پیچھے چھپتے نظر آئے، وہ عورتوں کو ڈھال بنا لیتے، کبھی نوجوانوں کے پیچھے چھپ جاتے، انہوں نے عدالتوں سے چھپنے کیلئے درجنوں بہانے تراشے، وہ ریلیوں اور جلسوں میں تندرست و توانا نظر آئے انکی دیگر سرگرمیوں میں بھی کمی نہ آئی لیکن عدالت بلاتی تو وہ بیمار پڑ جاتے پھر وہ اپنی پٹی بندھی ٹانگ دکھاتے جس میں انکی مرضی کے مطابق درد اٹھتا اور انکی مرضی سے غائب ہو جاتا۔ انھوں نے کسی بھی سرکاری یا غیر جانبدار ہسپتال سے اپنا طبی معائنہ کرانے سے گریز کیا تا کہ بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔
وہ جن درجن بھر مقدمات میں پھنس چکے ہیں انہیں یقین ہے کہ وہ اب سزا سے نہیں بچ سکتے پس انہوں نے تخریب کاری کا آخری سہارا لیا۔ وہ گرفتاری کے بعد قوم اور اپنے کارکنوں کو پُر امن رہنے کی اپیل کر کے واضح کرتے کہ وہ قانون کی عمل داری پر یقین رکھتے ہیں اور عدالت میں اپنی صفائی پیش کریں گے بے گناہ ہوئے تو سرخرو ہونگے۔ انہیں کرپشن کے جس مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے وہ سیدھا سادہ ہے۔ کئی ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی رقم حکومت برطانیہ نے حکومت پاکستان کو واپس کی۔ عمران خان نے وہ رقم اس ملزم کو واپس کر دی اور بدلے میں کئی سو ایکڑ زمین اپنے فرنٹ مین ذلفی بخاری کے نام الاٹ کرائی پھر ذلفی بخاری کو درمیان سے نکال کر بذات خود اور اپنی بیگم کو القادر ٹرسٹ کا ٹرسٹی بنا لیا۔ ستم بالائے ستم انہوں نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے اپنی کابینہ کے سامنے ایک سر بمہر لفافہ پیش کیا اور کہا کہ اس بند لفافے میں جو کچھ ملے اسکی منظوری دے دیں۔ ارکان کابینہ کی دیانت داری ملاحظہ فرمائیے، کسی نے سوال نہ اٹھایا کہ ہمیں بتایا جائے کہ بند لفافے میں موجود دستاویز میں کیا لکھا ہے۔ تمام وزرا نے بند لفافے کی بغیر دیکھے منظوری دے دی۔ یہ تھی صاف چلی شفاف چلی، یوں تحریک انصاف چلی۔
ان کی گرفتاری کے بعد انکی پالیسی کے مطابق پارٹی لیڈر جتھوں کی قیادت کرتے ہوئے انہیں بتاتے رہے کہ اب انکی اگلی منزل کونسی ہے، تخریب کاروں سے کے جتھے جناح ہاؤس لاہور میں گھس گئے۔ انہوں نے کور کمانڈر ہاؤس میں کور کمانڈر کے اہل خانہ کی اشیا لوٹ لیں۔ ایک تخریب کار نے انکی وردی پہن کر مٹک مٹک کر مخالفانہ نعرے لگائے۔ ایک تخریب کار بھونکتا نظر آیا ”کہا تھا خان کو ہاتھ نہ لگانا، اب اب وقت ہے خان کو چھوڑ دو“ یعنی بنک دولت پاکستان میں ڈکیتی کرنے والے کو چھوڑ دیا جائے۔ پھر جناح ہاؤس کو آگ لگا دی گئی اور فاتحانہ وہ رقص پیش کیا گیا جس کی کئی ماہ سے زمان پارک میں ریہرسل جاری تھی۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پاکستان ایئر فورس کا وہ طیارہ نذر آتش کیا جس نے بھارت کے ایئر بیس پر بمباری کی تھی۔ آرمی میوزیم میں لگی شہدائے وطن کی تصویریں زمین پر پھینک کر ان پر چہل قدمی کی، ملڑی اکیڈمی کاکول میں گھس کر عمارت میں توڑ پھوڑ کی، آرمی کے ایک آفیسرز میس ہر شے کو تہس نہس کر دینے کے لیے اسے آگ لگا دی۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو برباد کر دیا جبکہ ایف سی کے قلعے پر گولیاں چلاتے نظر آئے۔ پی ٹی آئی کارکنوں نے اس پر بس نہ کیا بلکہ وہ جی ایچ کیو کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ کرتے رہے اور املاک کو آگ لگاتے رہے۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیمیں متحرک رہیں انکی لیڈر شپ اور کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران دہشت گردوں کا حوصلہ بڑھانے والے پیغامات جاری کرتے رہے جن میں ریٹائرڈ میجر، کرنل، بریگیڈیئر اور لیفٹیننٹ جنرل رینک کے لوگ شامل ہیں ان میں بیشتر وہ لوگ ہیں جو اپنی نالائقیوں کے سبب پرموٹ نہ ہو سکے یا منفی رجحانات کے سبب فارغ کر دیئے گئے۔ بغض سے بھرے یہ افراد اپنے انداز میں افواج پاکستان اور دیگر حکومتی اداروں پر تنقید کرتے رہے انہوں نے غازیوں اور شہیدوں کی توہین کی۔ میڈیا میں موجود بعض افراد کا طرز عمل بھی ایسا ہی تھا۔ افواج پاکستان نے حیرت انگیز تحمل کا مظاہرہ کیا ورنہ تخریب کاروں پر گولی چلانے کا اختیار موجود ہوتا ہے۔ اس تحمل مزاجی پر افواج پاکستان کو ملک بھر میں خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے جبکہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جائیں، انہیں انجام تک پہنچایا جائے۔ دہشت گردوں ہوں یا سیاسی دہشت گرد یہ جب کسی رعایت کے مستحق نہیں، دہشت گردوں کو معافی دے کر ملک کو خطرات سے دوچار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم پچھتر برس لہک لہک کر گاتے رہے ”اے روح قائد ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں“ وقت آیا تو وعدہ وفا نہ کر سکے۔ قائد اعظم ہم آپ کا گھر شعلوں سے نہ بچا سکے، ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.