خواہشِ نفس اور خواہشِ قُرب

104

انسان بھی عجب ہے، یہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی خواہشِ نفس کی پرورش کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دل کے پالنے میں قرب کی خواہش بھی پالتا رہتا ہے۔ دو کشتیوں کا سوار کب پار لگا ہے؟ ایک پاؤں نفس کے حکم پر اور دوسرا رب کے حکم پر ہو تو یہ جاننے میں کچھ زیادہ دانائی کی ضرورت نہیں کہ ایسے مسافر کے نصیب میں غرقابی یقینی ہے۔ ”نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم“ کے مصداق دو راستوں کے مسافر کا اسبابِ سفر راہ میں لٹ جاتا ہے۔
مسافر کو وہ وقت، وجود اور وسائل جو راہِ خدا میں صرف کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں، وہ بے وفا دنیا لے اڑتی ہے۔ اس میں دنیا کا کچھ دوش نہیں۔ دنیا اپنا کام کر رہی ہے، وہ مدتوں سے اپنے فرائضِ منصبی بڑے عمدگی سے سرانجام دے رہی ہے۔ جس طرح گنہگار اپنے گناہ کا دوش شیطان کے سر پر منڈ نہیں سکتا اور اپنے کندھوں پر اٹھائی ہوئی ذمہ داریوں سے دوش پوش نہیں ہو سکتا، اسی طرح ایک مسافرِ زیست اپنی عاقبت، باطن اور روحانیت کے لیے دیا گیا زادِ سفر دنیا کے راستے پر لٹا کر دنیا ہی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا۔ دنیا اور شیطان کا کام صرف کسی کام کی ترغیب دینا ہے، اسے نظروں کے سامنے مزین کرنا ہے…… اسے اپنانا اور اس کے راستے پر چلنا مسافر کا اپنا فیصلہ ہے۔ دنیا کی کوئی مجبوری، خواہ اس کا نام بیوی ہو، بچہ ہو، یا پھر کوئی مال اور منصب، اگر اس کے راستے میں آڑے آتی ہے تو اس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ شوقِ سفر کا دعویٰ باطل تھا۔ مجبوری بیان کرنے والے کے لیے رخصت کا راستہ ہے، اور شوق والے کے لیے عزیمت کا راستہ ہے۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ جو عزیمت کے راستے سے واپس ہوئے انہیں ہزیمت اٹھانا پڑی…… انہیں عافیت گاہ نہ ملی، کوئی راہِ فرار نہ مل سکی۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے ”شوق مجبوری کی نفی کا نام ہے“ مجبوری کی نفی ہو گی تو شوق جمع ہو گا۔
سچ کہا، کہنے والوں نے، اور یہی ہر دور میں سچ کہنے والے کہتے رہے کہ خدا کی منزل اس کے لیے دو قدم ہے جو پہلا قدم اپنے نفس پر رکھتا ہے۔ نفس کے شر کو پہچاننے کے لیے نفس کو پہچاننا ضروری ہے۔ ”من عرف نفسہ فقد عرف ربہ“ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے۔ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک قول نہج البلاغہ میں یوں درج ہے ”یاد رکھو! وہ تم سے کسی ایسی چیز پر رضامند نہ ہو گا کہ جس پر تمہارے اگلوں سے ناراض ہو چکا ہو، اور نہ وہ کسی ایسی چیز پر غضبناک ہو گا کہ جس پر پہلے لوگوں سے خوش رہ چکا ہو۔ تمہیں تو بس یہی چاہئے کہ تم واضح نشانیوں پر چلتے رہو، اور تم سے پہلے لوگوں نے جو کہا ہے، اسے دہراتے رہو“ سبحان اللہ! یہ قول جہاں ایک پارہِ نصیحت ہے، وہاں یہ
معرفتِ توحید کا ایک مکمل باب ہے۔ اس کی شان ہے ”الاٰن کما کان“ …… ”وہ جیسا تھا، ویسا ہے“ یعنی اس کی پسند نا پسند میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی…… قرآنی آیت ہے ”تم کبھی اللہ کی سنت میں تبدیلی نہیں پاؤ گے……“ اس کا مزاج تبدیل ہوتا ہے، نہ اس کا دین کبھی تبدیل ہوا ہے۔ وہ اور اس کا دین قیام کی حالت میں ہیں۔ بس جسے اس بدلتی ہوئی دنیا میں قیام کا مقام حاصل کرنا ہو وہ اس کے دین سے وابستہ ہو جائے…… دین والوں سے پیوستہ ہو جائے۔ اس نے کہا ہے کہ میرے نزدیک اکرام و تکریم اس کی ہے جو متقی ہے…… یہ اٹل فیصلہ ہے۔ اس لیے کہا گیا کہ جب کوئی کسی فاسق کی تعریف کرتا ہے تو عرشِ الٰہی جلالِ الٰہی سے کانپ اٹھتا ہے۔ عرش فیصلوں کی جگہ ہے۔ اب یہ طے ہے کہ عزت و اکرام صرف ایک متقی کا کیا جائے گا۔ متقی خدا سے ڈرتا ہے، اور جو خدا سے ڈرتا ہے اس سے ڈرنا چاہیے۔ خدا سے ڈرنے والا مخلوق سے نہیں ڈرے گا۔ وہ خدا کی پسند نا پسند کا لحاظ رکھے گا، اور خدا کے مقابلے میں مخلوق کی رائے کو ترجیح نہیں دے گا۔ اس کے برعکس فاسق کی نشانی یہ ہے کہ وہ مخلوق کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خدا کی حدود کو پامال کرے گا، اپنے تکریم کردہ وجود کو پامال کرے گا۔ نتیجہ یہ کہ احسن الخالقین کی فہرست سے نکل کر اسفل السافلین میں جا گرے گا۔
تقویٰ کے متعلق بہت کچھ کہا گیا ہے، مختصر مگر جامع الفاظ میں تقویٰ کی تعریف سورۃ الحجرات میں رقم ہے۔ فرمایا گیا ”جو لوگ اپنی آوازیں رسول اللہﷺ کے حضور مدھم کر لیتے ہیں، اللہ نے ان کے دلوں کا تقویٰ جانچ لیا ہے“ آج کے دور میں آوازیں مدھم کر لینے سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد ہے، اپنی رائے کی آواز کو مدھم کر لینا، اپنی پسند اور ناپسند کو شریعتِ محمدیؐ کے مطابق ڈھال لینا۔ تکریمِ نبیؐ درحقیقت تکریمِ احکامِ نبیؐ ہے۔ حکم کی تکریم وہی کرتا ہے جو حکم کے تابع ہو جاتا ہے۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی مانتا ہے یا پھر اپنے رب کی مانتا ہے۔ نفس کی ایک نہ ماننا ہی رب کو من و عن ماننا ہے۔ نفس کی ایک نہ ماننے والا ہی رب کو ایک مانتا ہے…… یہی ہے وہ جو توحید پرست ہے۔ قرآن کریم میں ہے ”کیا آپ نے شخص کو دیکھا جس نے ہوائے نفس کو اپنا خدا مان لیا“ یعنی ایک اللہ کی نہ مان کر ہمیں بہت سی ہواؤں کے رخ پر چلنا پڑتا ہے۔ جب تک انسان تعلق کی ڈور سے بندھا رہتا ہے، ہوائے نفس اگر چلتی بھی ہے تو اسے اور اونچا اڑانے کے لیے چلتی ہے…… جس کے ہاتھ میں ہماری ڈور ہے، وہ ڈھیل دے گا اور اسے اونچا اڑانے کی ترکیب کرے گا، لیکن جب تعلق کی ڈور کٹ جاتی ہے تو انسان کا حشر ایک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہو جاتا ہے جسے ہوا جدھر چاہے لے جاتی ہے اور انجامِ کار وہ کسی انجان گلی محلوں میں لوٹ مار کا شکار ہو جاتا ہے۔
دل میں خواہشِ نفس پلتی ہے یا پھر خواہشِ قرب…… ایک دل میں ایک وقت میں دو متضاد خواہشیں جمع نہیں ہو سکتیں۔ قرآن حکیم میں یہ نکتہِ حکمت درج ہے کہ ہم نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں رکھے۔ مراد یہ کہ انسان اسی دل کو یا تو خواہشات کی آماجگاہ بنا کر نفس کو اپنی مملکتِ وجود پر حقِ حکمرانی دیتا ہے یا پھر دل کو ہر ناپاک خواہش سے پاک کرنے کے بعد اسے جلوہ گاہِ عرشِ ربِ کریم بناتا ہے کہ ایک تخت پر دو بادشاہ مسند نشیں نہیں ہو سکتے۔
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا، اب تو خلوت ہو گئی
وہ ذات جو سبحان ہے، اسے اپنے دل کے خلوت کدے میں دعوتِ قیام کے لیے دل کا قبلہ درست ہونا ضروری ہے…… دل کو پاک کرنا ازحد ضروری ہے۔ دل فکر و نظر سے مرکب ہے، اس لیے فکر و نظر کی پاکیزگی شرطِ اوّل ہے۔ نماز کی بنیادی شرائط میں بھی جگہ کا پاک ہونا، قبلہ رخ ہونا اور با وضو ہونا مندرج ہے۔ جس دل میں نفرت، بغض، حسد اور کینے کے پھپھولے جگہ گھیرے ہوئے ہوں، اس دل میں محبت و لطافت کا جھونکا کتنی دیر کے لیے ٹھہر سکتا ہے؟
وہ بادشاہ، بادشاہِ حقیقی ہے…… مالک الملک ہے…… قادرِ مطلق ہے…… وہ چاہے تو اس کا غیر کسی دل میں کیسے ٹھہر سکتا ہے۔ بندہ خود ہی خدا کا غیر ہے…… اپنے محبوب سے خود ہی محجوب ہو جاتا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ بندے کی نظر میں اس کی قدر کیا ہے۔ اسے اپنے بندے سے شکوہ ہے اور یہ شکوہ بجا ہے…… وما قدرو اللہ حق درہ……؟ انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی، جس طرح قدر کرنے کا حق تھا…… مکمل آیت یوں ہے ”انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جس طرح قدر کرنے کا حق تھا، جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ نے بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی“ یعنی اللہ کی قدر وہ کرے گا جو اللہ کی نازل شدہ ہدایت کی قدر کرے گا، اور جس ذاتؐ پر یہ عظیم ہدایت نازل ہوئی ہے، اس کی قدر کرے گا۔ گویا تکریم خدا دراصل تکریمِ رسولِ خداﷺ ہے اور تکریمِ رسولِ خدا تکریمِ احکامِ رسولِ خدا ہے۔ شریعتِ محمدیؐ کے اوامر و نواہی کا اہتمام عملی طور پر اللہ اور اللہ کے رسولؐ پر ایمان کی تصدیق ہے۔ محبت کی دلیل اطاعت ہے۔ اطاعت میں کمی توبہ کی متقاضی ہے…… اطاعت میں کجی فسق کا حکم رکھتی ہے اور اطاعت سے انکار بغاوت کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔ معصیت کے لیے مغفرت ہے…… بغاوت کے لیے سزا رقم ہے…… یہی آئینِ فطرت ہے…… یہی دینِ مستقیم ہے…… اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی!!

تبصرے بند ہیں.