رواں دنوں میں بلاول بھٹو زرداری کی شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کا اہتمام بھارت میں کیا گیا، جس میں شرکت ریاست کا فیصلہ تھا۔ پوری دنیا کے تجزیہ کاروں اور نقادوں کے زیر بحث و زیر قلم رہنے والے بلاول بھٹو کے ایک ایک ایکشن، ایک ایک لفظ، الفاظ کی ادائیگی، الفاظ کے چناؤ اور چہرے و لہجے کو موضوع بنایا گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی اس تقریب اور اجلاس میں بلاول بھٹو کی شمولیت کی وجہ سے دیگر وزرائے خارجہ کی موجودگی منظر میں وہ اہمیت حاصل نہ کر سکی جیسی اہمیت بلاول بھٹو کی بھارت میں موجودگی کو حاصل ہوئی۔ بنیادی طور پر اس تنظیم کی تقریب کا اہتمام چین اور روس نے کیا تھا۔ بھارت کا انتخاب بھارت کے احساس کمتری اور بے بھروسہ ملک ہونے کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ دنیا بھر کے میڈیا نے بلاول بھٹو کے دورہ بھارت اور شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کو سلور لائٹنگ قرار دیا۔اسی طرح بلاول بھٹو نے اپنے طرز عمل سے بھارت کی مکاری، زہریلا پن، عیاری اور حسد کی فطرت کو دنیا میں آشکار کیا کہ بھارت دلائل سے نہیں محض دلالی سے چلنے والا ملک ہے۔جن نکات اور باتوں کا موقع کا نفرنس میں نہ بن پایا ان کو بھی انٹرویو میں بھارتیوں اور بھارت کے چہرے سے نقاب نوچتے ہوئے اقوام عالم اور مہذب دنیا کے سامنے پہنچایا۔ پونچھ کے واقعات، راجوری کے واقعات اور پھر بلاول بھٹو کا تب اپنے تئیں ابھرتی ہوئی مملکت کے سربراہ کو گجرات کا قصائی کہنا، اسامہ بن لادن کے لیے کہنا کہ وہ تو ہلاک ہو چکا، جبکہ بھارتیوں نے اسے وزیراعظم بنا رکھا ہے۔ اس بیان کی تپش ابھی باقی تھی کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس آ گئی۔ جرمنی، امریکہ، انگلینڈ، یورپ اور دنیا کے دیگر بڑے ممالک کے تجزیہ کاروں نے کہا کہ بلاول بھٹو پر تنقید صرف بھارت کر سکتا ہے جو اس موقع پر سرا سر غیر اخلاقی حرکت تھی وطن عزیز میں تاجروں صنعتکاروں نے دورہ کو سراہا اور بلاول بھٹو کے تدبر کی تائید کی۔ بھارتی وزیر خارجہ کی کم ظرفی کے باوجود وہ پُر امید ہیں کہ کاروباری سرگرمیاں ضرور بحال ہوں گی۔ بعض تجزیہ کاروں کو غلط فہمی ہے کہ پاکستان کو زیادہ ضرورت ہے حالانکہ 23 کروڑ انسانوں کی منڈی بھارت جیسا بنیا ملک کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ بلاول بھٹو نے دورہ شروع ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ SCO میں شرکت ہے۔ اس شرکت میں حد سے گزرنے کے الفاظ کہ آزاد کشمیر کب خالی کر رہے ہیں، بھارتی وزیر خارجہ کے چھوٹے اور جھوٹے پن کو آشکارا کرتا ہے۔ بلاول بھٹو نے مسکراتے ہوئے جو انجکشن دیا وہ اس کو یاد رہے گا جس کا مفہوم یہ ہے کہ بھارت کے رویے میں اعتماد کا فقدان ہے کیونکہ بھارت پہلے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ جو 2019 (کہ امریکہ میں عمران نیازی بطور وزیراعظم پاکستان اور جنرل باجوہ بطور آرمی چیف دورہ کے بعد ہوا) یعنی کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت ختم کرتے ہوئے بھارت نے تمام بین الاقوامی اور دو طرفہ معاہدوں کو توڑا لہٰذا اب اس بات کی کون گارنٹی دے گا کہ بھارت بات پر قائم رہے گا۔ بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا کہ پہلے کشمیر کی 2019 سے پہلے کی حیثیت بحال کریں پھر کوئی بات ہو گی۔ بھارتی وزیر خارجہ کے موقف کے مقابلے میں چین نے پاکستانی وزیر خارجہ کی کھل کر حمایت کی، مسئلہ کشمیر کو حل طلب قرار دیا اور یہ دو ٹوک انداز میں کہا گیا۔ قارئین یہ ذہن میں رکھئے گا کہ یہ شنگھائی تنظیم کی کانفرنس ہے، مسئلہ کشمیر اس کا موضوع نہیں تھا۔ اس کے باوجود مسئلہ کشمیر پر بلاول بھٹو کا موقف عالمی سطح پر مانا بھی گیا اور سفارتی آداب کو سراہا بھی گیا۔ دنیا کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، دلیل اور بین الاقوامی قوانین کی عملداری پر یقین رکھتا ہے۔ دوسری جانب اپنے آپ کو ابھرتی ہوئی قوت کہنے والے بھارت کے وزیرخارجہ اور
ریاست اپنی 5 ہزار سالہ تاریخ کو بھول گئے جنہوں نے دنیا میں آداب عرض ہے پر قبضہ کر رکھا ہے جہاں کی طوائفیں تک مہذب سمجھی جاتی ہیں جہاں گانا بجانا قانون کا درجہ رکھتا ہے، جہاں سلام کرتے ہوئے سر زمین کو لگا دینا رسم ہے ہاتھ باندھ کر احترام کرنا، پائے لاگوں (پاؤں چھونا) روایت ہے۔ اس ریاست کے وزیر خارجہ کو بلاول بھٹو کے سواگت (میں عشائیے نہیں تقریب کی بات کر رہا ہوں) میں منافقانہ انداز اور غلامانہ طرز پر سینے پر ہاتھ باندھ کر نمستے کہنا پڑا۔ یہی غلامی اسے بلاول بھٹو کی وجہ سے ہر وزیر خارجہ سے کرنا پڑی اور اس پر بلاول بھٹو سے جب یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ
مجھے تو بہت اچھا لگا جب میں سندھ میں جاتا ہوں تو لوگ ایسے ہی ملتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ سندھ بلکہ
ہمارے ہاں ہاری اور کمیرے اب تو پنجاب میں بھی یہ خوشامد در آئی ہے لوگ ایسے ہی ملتے ہیں۔ گویا بلاول بھٹو نے بھارت کے وزیر خارجہ کو سندھ کے ہاریوں سے مختلف نہیں پایا جبکہ شنگھائی تنظیم کے شرکاء کے لیے بھارتی ریاستی رویہ بیواؤں یا بھارت میں گانا بجانا کرنے کی قدیم رسم رکھنے والوں کے انداز میں اظہار کرنے کا انکشاف کیا۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو کی جگہ کوئی اور وزیر خارجہ ہوتا اس کو اتنی پذیرائی یا اہمیت ملتی، ہرگز نہیں۔ بے شک وہ پاکستان کی ہی نمائندگی کر رہے تھے مگر ان کا پس منظر گریٹ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اتنے بڑے لیڈر جن کی وطن عزیز میں قائد اعظم کے بعد مثال نہیں ملتی جو اپنے وقت میں دنیا بھر میں 12 رہنماؤں میں سب سے قد آور شخصیت مانے جاتے تھے۔ جن کی زندگی کا زمانہ ان کے نام سے منسوب ہو گا۔ بلاول بھٹو کو وطن عزیز اور ریاست کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ اپنے نانا کی نمائندگی بھی کرنا تھی، اپنی والدہ کی نمائندگی کرنا تھی۔ ایک نوجوان وزیر خارجہ جس کو دنیا میں Wise Youngman کے طور پر دیکھا جا رہا ہے انہوں نے شنگھائی کانفرنس میں کانفرنس کے مقاصد کے علاوہ بھارت کی جمہوریت پسندی، قانون پسندی کے جعلی پردے کو چاک کر کے نحوست، حسد، کم ظرفی، بین الاقوامی معاہدہ کی شکنی کو بے نقاب کیا ہے۔ وطن عزیز میں ایک سیاست دان کے روپ میں موجود عمران خان اور ان کے حواری تنقید کر رہے تھے اس بات پر جو وقوع پذیر ہی نہ ہوئی۔ مجھے یاد ہے ڈاکٹر مبشر حسن نجم سیٹھی کو انٹرویو دے رہے تھے تو نجم سیٹھی موضوع سے ہٹ کر، بھٹو صاحب پر ہی بات ہو رہی تھی، کوئی الٹا سیدھا کہلوانا چاہ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ”دیکھو تم نے کبھی ریاست چلائی نہیں تمہیں ریاست کا علم نہیں مجھ سے سیدھا پوچھو، ریاست چلانے میں بہت سے امور ہوتے ہیں“۔ غلاموں کی بھی ضروریات ہوتی ہیں یہ تجارت کا دور ہے، چین اشیائے ضروریہ جبکہ امریکہ اسلحہ بیچتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے فیض حمید کے دورہ افغانستان اور عمران خان کے یوکرائن پر حملے والے دن روس کے دورہ کو اتفاقیہ قرار دے کر جسٹیفائی کیا۔ جو لوگ تنقید کر رہے ہیں وہ جھوٹے اور مکار ہیں دراصل بلاول بھٹو پیپلز پارٹی نہیں بھارت میں ریاست کے نمائندے تھے اور انہوں نے اپنی ذمہ داریاں خوب نبھائیں۔ ہر سوال کا جواب دلیل اور چابکدستی سے دیا یہاں تک کہ بھارتی وزیر خارجہ کے بلاول بھٹو کے سواگت کے منافقانہ انداز کو بھی اخلاق اور صدیوں کے تدبر سے روندتے ہوئے گزر کر ڈائس پر پہنچ گئے، ویل ڈن بلاول۔۔۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.