صدیوں یاد رہنے والے جھوٹ

55

آج رات میں نے پھر اک خوفناک خواب دیکھا۔ پہلے کی طرح اس خواب میں بھی میری والد محترم کے ہاتھوں پوری طرح چھترول ہو رہی تھی۔ میں نے ہمت کر کے اس چھترول کی وجہ پوچھی تو غصے میں بولے کہ تم نے زندگی میں اب تک سو سے زیادہ مرتبہ جھوٹ بولا ہے۔ جو جھوٹ تم نے غیر ارادی طور پر بولے وہ ان کے علاوہ ہیں۔ میں نے ہمت کر کے اس تعداد میں تھوڑی بہت تبدیلی کروانا چاہی تو غصے میں بولتے ہوئے مجھے ڈانٹا میں اپنی اس کو تاہی پر پوری طرح شرمندہ تھا۔میں نے والد محترم کو پھر پوچھا کہ آپ اب اس دنیا میں نہیں ہیں چلیں آج مجھے یہ بات تو بتا ئیں کہ اوسطاً ایک شخص کو زندگی میں کتنی بار جھوٹ بولنا چاہیے۔ وہ تھوڑا مسکرائے۔ پھر فرمایا اصولی طور پر تو انسان کو زندگی میں جھوٹ بالکل نہیں بولنا چاہیے لیکن چونکہ انسان خطا کا پتلا ہے اس لیے تھوڑا بہت جھوٹ مجبوری میں بول جاتا ہے۔ میں نے جسارت کی کہ امریکا کے اس الیکشن میں دنیا بھر کے اربوں لوگوں کا خیال تھا کہ ہیلری کلنٹن امریکا کی صدر بن جائے گی لیکن جب رزلٹ آیا تو ڈونلڈ ٹرمپ سمیت سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے اورہیلری کا منہ اس بری طرح بند ہوا کہ اس نے آج تک اس ہار کے بارے میں نہ تو کسی قسم کا کوئی بیان جاری کیا، نہ کہیں غصے کا اظہار کیا اور نہ ہی امریکن عوام سے کسی قسم کا گلہ شکوہ کیا۔ رہی بات دنیا کے بڑے جھوٹ بولنے والوں کی تو ان میں آج تک جارج بش مجھے بڑے جھوٹ بولنے والوں میں یا مجھے بڑے جھوٹ بولنے والوں کا سردار معلوم ہوتا ہے۔ یہ شخص ہر دن کا آغاز جھوٹ بولنے سے کرتا ہے اور جب وہ اپنے منصب سے اتر اتو دنیا بھر کے بڑے اداروں نے ثابت کیا کہ اس نے جو جو الزامات دنیا بھر کے لیڈروں پر لگائے اور جن کو وجہ بنا کر اس نے لاکھوں سیدھے سادے انسانوں قتل کر ڈالا۔ ہزاروں کی تعداد میں بم گرائے۔ وہ سب جھوٹی کہانیاں تھیں۔ اس کی اپنی بنائی ہوئی وجو ہات تھیں۔ اسی طرح 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران اس امریکا نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے اور کروڑوں انسان موت کے منہ میں چلے گئے یا اپاہج ہو کر رہ گئے۔ بنیادی طور پر ہلاکو خان سے لے کر عمران خان تک سب مجھے اقتدار کے بھوکے لگتے ہیں۔ دنیا بھر میں زیادہ جنگیں اقتدار کی وجہ سے یا یوں کہہ لیں طاقت کے حصول کے لیے نا جائز طور پرلڑی گئیں جن میں ہم جیسے سادہ لوگ لقمہئ اجل بن گئے۔ محض لیڈروں کی تفنن طبع کے لیے۔
اس دوران میں نے دیکھا کہ والد محترم نے مسکراتے ہوئے میرے سر پر محبت سے دست شفقت رکھا اور بولے میں تم سے زیادہ ناراض نہیں ہوں۔ تم نے زندگی میں اپنے رہنماؤں کے مقابلہ
میں بہت کم جھوٹ بولا اور مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ تم اپنے اس جھوٹ پر شرمند ہ ہو، پشیمان ہو اور ہر بار جھوٹ بولنے کے بعد نہ صرف توبہ کرتے ہو بلکہ آئندہ بھی جھوٹ نہ بولنے کا خود سے معاہد ہ بھی کرتے ہو۔ وہ الگ بات ہے کہ اپنے لیڈروں کی طرح تم کئے گئے معاہدوں پر کار بند نہیں رہتے، اُن کا پاس نہیں کرتے۔ میری تم سے التجا ہے اپنی نئی نسل کو میرا یہ پیغام دے دو کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں جوکتابوں میں لکھا ہے اس پر غور کریں اور ان کتابوں میں لکھی اچھی باتوں پر عمل بھی کریں کیونکہ مجھے تمہاری نئی قیادت سے کسی قسم کی اچھائی کی امید نہیں کیونکہ یہ سیاسی اور مذہبی رہنما انسانوں کی تربیت بھی تو کرتے ہیں اور نئی نسلیں ان رہنماؤں سے ہمیشہ بہت کچھ سیکھتی تھیں، اُن کے کیے پر عمل درآمد کرتی تھیں، ان کے کہے پر چلتی تھیں لیکن تاریخ انسان میں جہاں اور نگزیب عالمگیر جیسے پیدا ہوئے جن کی دیکھا دیکھی دنیا میں فلاح کا نظام پیدا ہوا۔ ایسے ہی جب محمد شاہ رنگیلا اور احمد شاہ رنگیلا جیسے حکمران آئے تو نسلیں بھی تباہ ہو ئیں،مملکتیں بھی اجڑ گئیں اور بہادر شاہ ظفر کو جب رنگون میں بھیجا گیا تو اس نے سیکڑوں ہندوؤں سے بڑے بڑے اُدھار سود پر لے رکھے تھے۔ وہ ہندو جب رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتے تو بہادر شاہ ظفر کوسخت شرمندگی ہوتی، کوفت اُٹھانا پڑتی اور وہ ہند و جاتے جاتے جب بہادر شاہ ظفر جیسے نازک اور شا عرقسم کے انسان کو گندی غلیظ گالیاں دیتے تو وہ اُن کو گالیاں دینے سے ہرگز نہ روک پاتا۔ بلکہ آہستہ سے کہتا ذرا دھیمی آواز میں کیونکہ وہ بیچارہ بری طرح سے اُن کے سامنے بے بس تھا اور مجبوریوں میں جکڑا ہوا تھا۔ میری آنکھوں میں والد صاحب کی یہ نصیحت اور تاریخی باتیں سن کر آنسو آگئے اور میں گھبرا گیا۔ میں ہڑبڑا کر اُٹھا اور جلدی میں ٹیلی ویژن آن کیا تو میری ہنسی نکل گئی کیونکہ میرے سامنے ہمارا ایک بہت بڑاسیاسی رہنما ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں بری طرح جھوٹ بول رہا تھا اور لوگ خوشی خوشی اپنے اس لیڈر کے وہ جھوٹ سن رہے تھے جن کے بارے میں اُن کو خود یقین تھا کہ یہ سب بکواس ہے اور وہ محض ڈرامہ بازی کر رہا ہے۔ چینلز پر افراتفری والے بیانات چلوانے کے لیے حسب معمول نت نئی کہانیاں بول رہا ہے۔ درحقیقت ہمارے اس لیڈر نے اس قدر تواتر کے ساتھ جھوٹ بولا ہے اور اس سطح پر جھوٹ بولا ہے جس پر ان کے پاس اس بات کی بھی گنجائش نہیں کہ وہ کہہ سکیں کہ میں جلدی میں یا کسی غلط فہمی کی بنا پر جھوٹ بول گیا تھا اور میں اپنے اس جھوٹ بولنے پر شرمندہ ہوں۔ مجھے لگتا ہے عنقریب اس حوالے سے بازار میں سب سے ضخیم دو عدد کتابیں آجائیں گی جن میں سے ایک کتاب موصوف کی سابقہ بیوی ریحام خان نے لکھی ہے۔ ریحام خان نے یہ کتاب تاریخ میں موجود ایک ایسی سیاسی شخصیت غلام مصطفی کھر کے حوالے سے موجود کتاب مینڈھا سائیں کو سامنے رکھتے ہوئے لکھی ہے۔ جو بے حد مقبول ہوئی تھی کیونکہ ریحام خان کا دور کمپیوٹر کا دور ہے اس لیے اس کتاب میں ہمارے اس لیڈر کے جھوٹ بھی دستاویزات سمیت شائع ہوں گے اور ریحام خان کی لکھی ہوئی یہ کتاب 2018 ء کے الیکشن میں میاں نواز شریف اور اْن کی پاکستان مسلم لیگ کے لیے بہت حد تک محدد معاون ثابت ہوئی۔ رہی بات دوسری کتاب کی تو وہ شاید مجھے لکھنا پڑے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ اس کتاب کے ساتھ مجھے فرحت عباس کی شاعری کی کتابوں کی طرح ایک ایک سی ڈی بھی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ڈالنا پڑے گی۔ فرحت عباس شاہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب شام کے بعد کے ساتھ وہ سی ڈی بھی ڈالی جس میں انہوں نے اپنی غزلیں عوام کے لیے،نوجوان نسل کے لیے خود بھی گائی تھیں۔ رہی بات جھوٹ کے پلندے کے عنوان سے چھپنے والی میری کتاب کی تو اس میں شاید مجھے دو سے زیادہ سی ڈیز ڈالنا پڑیں کہ خان صاحب کے ایک ایک جھوٹ کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لیے اُن کے پرانے انٹرویوز اور پھر اسی حوالے سے ان کے نئے جھوٹ پر مبنی انٹرویوز بھی تو لگانا پڑیں گے کیونکہ خان صاحب اپنے ہرجھوٹ کا، اپنی ہر کہانی کا نتارا میرا کہنے کا مطلب ہے کہ anylasis عدالتوں کے ذریعے کرانا چاہتے ہیں۔ گویا کہ پاکستان بھر کی عدالتیں اب غریب لوگوں کے عدالتی معاملات ٹھپ کر دیں یا اُن کو ایک ڈیڑھ سال کے لیے پس پشت رکھ دیں کیونکہ اب تو عدالتوں کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بھی ہر دن عدالتوں کی طرف دیکھنا ہے، ہر شام خان صاحب کا نیا جھوٹ سنتا ہے اور پھر صرف اس انتظار میں رہنا ہے کہ عدالت جھوٹ نمبر 2337 کا کیا فیصلہ دیتی ہے جبکہ اس دوران جھوٹ نمبر 9780 کے حوالے سے پشاور کی کسی عدالت میں نیا کیس دائر ہو چکا ہوگا۔
تاریخ گواہ ہے ہمارے دور میں میٹرک کی تاریخ کی کتاب میں ہمیں سیاسی حالات پڑھائے جاتے تھے۔ جہاں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور پھر مولانا مفتی محمود، مولانا مودودی اور پروفیسر غفور کی سیاسی دانشمندی کے بارے میں بتایا جاتا تھا پڑھایا جا تا تھا۔ یا پھر ضیاء الحق کے مارشل لا کے حوالے سے ہم مارشل لا لگنے کی وجوہات کے حوالے سے سبق یاد کیا کرتے تھے۔ کل کا طالب علم نواز شریف، موٹر وے سی پیک، پاکستان کی اقتصادی ترقی اور شیخ رشید کی بیہودہ تقریر یں اور عمران خان کے ہزاروں سچے جھوٹ کے حوالے سے سوالوں کے جواب تیار کیا کریں گے اور انجوائے بھی کیا کریں گے کیونکہ ہمارے بعد جو نسل آئے گی وہ عملی طور پر موصوف کے جھوٹ جب چاہے گی دیکھ سکے گی۔ کیونکہ ایک ناکام سیاستدان کے طور پر تو لوگ انہیں مدتوں یاد رکھیں گے۔ ایک جھوٹے شخص کے طور پر بھی یہ صدیوں عوام کو یادر ہیں گے۔

تبصرے بند ہیں.