آج کی دنیا میں بادشاہت یا شہنشاہت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ انگلینڈ کا موجودہ شاہی خاندان آج (6 مئی) کو کنگ چارلس سوم کی تاجپوشی Coronation کی تاریخی تقریبات کا آغاز کرنے جا رہا ہے یہ تقریبات ہفتہ بھر جاری رہیں گی۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے وزیراعظم شہباز شریف خصوصی دعوت پر انگلینڈ روانہ ہو چکے ہیں۔ تقریباً 203 ممالک کے 2200 اعلیٰ شخصیات اس تقریب میں شریک ہوں گی جن میں 100 ممالک کے سربراہان مملکت شامل ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کو بھی دعوت دی گئی تھی مگر ان کی جگہ انڈیا کے نائب صدر اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
انگلینڈ کا موجودہ شاہی خاندان 1066ءسے انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ پر حکمران ہے یعنی گزشتہ تقریباً ایک ہزار سال سے بادشاہت اسی خاندان میں چلی آ رہی ہے۔ بادشاہ کی پہلی اولاد خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی بادشاہ کی موت کے بعد اس کی جانشین قرارپارتی ہے۔ وراثت یا جانشینی کے اس اصول کو Primogeniture کہا جاتا ہے جسے قانون سازی کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔ اس لیے شاہی ولی عہد کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی شرطیں لگ جاتی ہیں کہ برطانوی شاہی خاندان کی آنے والی نسلوں میں بادشاہت کسی لڑکے کو ملے گی یا لڑکی کو اور ولادت کے ساتھ ہی فیصلہ ہو جاتاہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم 96 سال کی عمر میں وفات پا گئیں انہوں نے 70 سال تک حکومت کی جو ایک ریکارڈ ہے وہ تاج برطانیہ کی 40 ویں حکمران تھیں جو 25 سال کی عمر میں وہ 1953ءمیں ملکہ بنیں تو وہ بادشاہت کی تاریخ کی نو عمر ترین کوئین تھیں آخری عمر میں ان کی پیرانہ سالی کی وجہ سے انہیں کوئین مدر کہا جاتا تھا ۔ ان کے بیٹے پرنس چارلس ہیں جو ولی عہد تھے گزشتہ سال ان کی وفات کے بعد ملک کے 41 ویں بادشاہ بنے جن کی تاجپوشی کی رسم اب ادا کی جا رہی ہے کنگ چارلس سوم برطانوی بادشاہت کی تاریخ کے سب سے عمر رسیدہ بادشاہ ہیں جو 73 سال کے ہو کر بادشاہ بنے ہیں ان کی پہلی شادی 1981ءمیں لیڈی ڈیانا سے ہوئی یہ ایک Fairytale یا دیومالائی شادی تھی۔ شہزادی ڈیانا حسن خوبصورتی اور اپنی دلکش مسکراہٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں اتنی مقبول ہوئی کہ ان کی پسندیدگی کے آگے شاہی خاندان کا وقار ماند پڑنے لگا وہ 1996ءمیں ایک سڑک کے حادثے
میں جاں بحق ہوگئیں مگر مرنے سے پہلے ان کے اور چارلس کے درمیان طلاق ہو چکی تھی اور طلاق کی وجہ شہزادے کے پامیلا پارکر کے ساتھ تعلقات تھے ڈیانا کی موت کے بعد چارلس نے پامیلا سے شادی کر لی اور اب وہ کنگ چارلس سوم کی اہلیہ یعنی ملکہ¿ برطانیہ بن چکی ہیں تاجپوشی کی اس تقریب میں انہیں بھی شاہی تاج پہنایا جائے گا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئین پامیلا اپنی ساس ملکہ الزبتھ والا تاج نہیں پہن رہیں جس میں ہندوستان سے لایا گیا کوہ نور ہیرا سجا ہوا ہے بلکہ انہوں نے 1911ءکی کوئین میری کا تاج پہننے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوہ نور ہیرے کے ساتھ بڑی منحوس داستانیں وابستہ ہیں یہ جس نے بھی پہنا اس پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
برطانوی شاہی خاندان کی افسانوی زندگی کی بے شمار کہانیوں میں ایک چھوٹا سا واقعہ ہمارے قریب سے بھی گزرا ہے۔ 1986ءمیں لیڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس نے اپنے دورہ¿ خلیجی ممالک میں بحرین میں 3 روز قیام کیا تھا اس وقت میں بحرین کے سپیشل سکیورٹی فورسز (SSF) سافرہ میں زیر تربیت تھا اس وقت کے امیر البحرین مرحوم شیخ عیسیٰ بن سلمان الخلیفہ کے دیوان امیری میں معزز مہمانوں کی آمد کے موقع پر ہمیں وہاں سکیورٹی ڈیوٹی پر تعینات کیا گیا اور پولیس لائن اپ کے بیچوں بیچ شہزادی ڈیانا اور ولی عہد چارلس کا Motorcade ہمارے سامنے سے گزر رہا تھا۔ بحرین میں گلف ڈیلی نیوز اخبار کے چیف ایڈیٹر جارج ویشم برطانوی تھے ، ان کے اخبار میں برطانوی شاہی خاندان کی خبریں روزانہ چھپتی تھیں لہٰذا شاہی جوڑے کے ساتھ ہماری رومانوی وابستگی ماضی کا قصہ ہے۔ تاجپوشی کی یہ رسم west minister abey میں منعقد ہو رہی ہے کنگ چارلس سوم ملکہ پامیلا اپنی سرکاری رہائش بکنگھم پیلس سے Gold State Coach یعنی سونے کی بنی ہوئی بگھی میں اپنے مخصوص فوجی اور شاہی لباس میں بیٹھ کر آئیں گے ان کی رہائش گاہ سے لے کر شاہی دربار تک سڑک کے دونوں طرف عوام کا ہجوم ہو گا جو خوشیاں منا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تقریب محض سیاسی یا سرکاری نہیں بلکہ مذہبی تقدس بھی رکھتی ہے برطانوی کنگ چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بھی ہوتا ہے اور اسے Defender of Faith یا مذہب کا محافظ کہا جاتا ہے یہ عیسائیت میں بہت بڑا اعزاز ہے۔
انگریز لوگ فطری طور پر روایت پسند ہیں۔ انگلینڈ میں 1832 ءکے ریفارم ایکٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اب عملاً حکومت ووٹ کے ذریعے بنتی ہے لیکن انگریز شاہی خاندان سے محبت کرتے ہیں لہٰذا نہوں نے بادشاہت کو ختم نہیں کیا۔ اب بھی بادشاہ الیکشن کے بعد اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو حکومت سازی کی دعوت دیتا ہے وزراءکی تعیناتی کرتا ہے پارلیمنٹ کے لیے سیشن کا افتتاح کرتا ہے اور قانون سازی پر حتمی دستخط کرتا ہے۔ حکومت رسمی طور پر بادشاہ کے تابع ہوتی ہے اور تمام غیر ملکی معاہدے تاج برطانیہ کے نام پر کیے جاتے ہیں۔
برطانیہ میں اس طرح کی رسم تاجپوشی ایک غیر معمولی واقعہ ہے وہ برطانوی شہری جو 1953ءکے بعد پیدا ہوئے ہیں ان کی زندگی میں یہ موقع پہلی بار آرہا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کو تاج پہنانے کی رسم ملاحظہ کریں گے تقریب سیاسی سے زیادہ مذہبی اہمیت کی حاصل ہے جس میں آرچ بشپ آف کینڈ بری حلف برداری اور دیگر رسومات انجام دیں گے جس طرح برصغیر کی شادیوں میں تیل مہندی رسم ہے اس سے مشابہ Aionting کی تقریب ہو گی جس میں کنگ کے سر اور ہتھیلیوں پر مقدس تیل لگایا جائے گا جو یروشلم میں خصوصی طور پر تیار ہوا ہے۔
کنگ چارلس کے چھوٹے بیٹے ہیری کو بھی دعوت دی گئی ہے یاد رہے کہ پرنس ہیری ملکہ¿ الزبتھ کے دور میں بھی شاہی خاندان کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے متنازع رہے ہیں انہوں نے تمام شاہی القابات واپس کر دیئے تھے۔ ان کے اپنے والد کے ساتھ اختلافات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شہزادہ ہیری اپنی سوتیلی ماں کو پسند نہیں کرتے علاوہ ازیں انہوں نے اپنی بائیو گرافی میں شاہی روایات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور شاہی خاندان کی مرضی کے بر خلاف پسند کی شادی کی۔ اس تقریب میں مہمانوں کی 10 ویں قطار میں ان کی کرسی لگائی گئی ہے اور وہ اپنے بیوی بچوں کے بغیر ایک عام مہمان کی طرح شریک ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی لوگ ایک دوسرے پر وراثتی سیاست یا بادشاہت کا الزام لگاتے ہیں اور بادشاہت کو ایک گالی کے طور پر لیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر آپ دنیا کی حکومتوں پر نظر دوڑائیں تو جن جن ممالک میں بادشاہت ہے وہاں حکمرانی نظام روانی سے چل رہا ہے آپ برطانیہ کو دیکھ لیں جاپان کو دیکھ لیں عرب ریاستوں کو دیکھ لیں وہاں عوام خوشحال ہیں۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.