”سونے کی گھڑی!“
ہم سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے…. سونے کی گھڑی بھی ہوتی ہے!! میں نے اپنے دوست دینو کمہار کے بیٹے سے کہا ….تو وہ چپ رہا لیکن اس کی آنکھوں میں مجھے سونے جیسی چمک محسوس ہوئی۔
”بلے بھٹی بلے“…. صنوبر خان نے پشتو میں ہم پر فقرہ کسا….
جس کا مفہوم تھا…. ”اتنی بڑی بڑی نہ چھوڑا کرو ….اپنی اوقات میں رہا کرو“….
لیکن یہ بات پوری کلاس کے لیے ایک انتہائی اہم خبر اور حیرت انگیز تجربہ کے طور پر سامنے آئی اور کیسے ممکن ہے کہ ہم چپکے چپکے…. سونے کی گھڑی کا تذکرہ نہ کریں…. ہر بچہ اپنی حیرت بلکہ پریشانی کا اظہار کر چکا تھا۔
”سونے کی گھڑی“ اب ہم سب کو اک خواب لگ رہی تھی…. دینو کمہا رکا بیٹا ہم کلاس فیلوز میں سب سے زیرک اور خاموش طبع تھا…. میرے لیے سب سے اہم بات وہی ہوتی جس پر دینو کمہار کا بیٹاYES کر دیتا یا مسکرا دیتا اور یا کم از کم حیرت کا اظہار ضرور کر دیتا …. میں نے پھر اسے بتلایا کہ ”سنا ہے تم نے لوہاروں کا لڑکا کہتا ہے کہ ….منیر سنیارے کے پاپانے سونے کی گھڑی خریدی ہے اور اس نے شرط رکھی ہے کہ اگر تم سونے کی گھڑی پہن کر سکول جانا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ تمہاری سالانہ امتحان میں پہلی پوزیشن آئے…. واہ بھئی واہ…. کیا شرط ہے اور کیا انعام ہے !“
دینو کمہار کے بیٹے نے پہلی بار بات کی اہمیت کو سمجھا اور اپنی حیرت کا اظہار کیا….
”حافظ ….تونے بھی تو قرآن پاک حفظ کرتے ہوئے یاد کرنے کی سپیڈ اس لیے بڑ ھائی تھی کہ ….ایک تو ریکارڈ قائم ہو کہ ڈیڑھ سال کی مدت میں قرآن پاک حفظ کر لیا اور دوسرا تمہارے والد صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ جس دن قرآن پاک مکمل حفظ ہو گا اسی شام تمہیں ایئر گن کا تحفہ دیا جائے گا….“
کم عمری میں بچوں کا پسندیدہ کھیل ایئر گن سے چڑیا مارنا ہی تو ہوتا ہے۔ میری ہنسی نکل گئی ۔ ”ہاں ہاں…. تم سچ کہتے ہو اور دیکھ لو اللہ پاک نے میرے والد صاحب اور میرے من کی مراد پوری کر دی اور میں نے جلدی جلدی قرآن پاک حفظ کر لیا اور واقعی اسی شام میرے والد صاحب نے مال روڈ سے مجھے ایئر گن خرید کر دی ….اور دوستوں میں میری خوب ’واہ واہ‘ ہوگئی….“
یہ لالچ ہوتے ہیں یا Inspiration ….دینو کمہار کے بیٹے نے پوچھا…. مجھے کچھ سمجھ نہ آئی …. کہ یہ لفظ Inspiration کیا ہوتا ہے البتہ لفظ ”لالچ “کا مجھے پوری طرح پتہ تھاکیونکہ میری طبیعت میں طمع تو شاید نہ ہو لیکن لالچ کا عنصر بہر حال موجود ہے …. جو شاید تھوڑا بہت ہرانسان میں ہی ہوتا ہے…. یہاں تک کہ بات ماسٹر دین محمد صاحب تک بھی پہنچ گئی …. ماسٹر دین محمد اللہ والے تھے سفید شلوار قمیض پہنتے تھے…. میں نے انہیں کبھی بھی کسی اور رنگ کا ڈریس پہنے نہیں دیکھا ….چوتھے پیریڈ میں تشریف لائے تو جہاں جہاں سے گزرے بچوں کے سروں پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے گزرے اور بلیک بورڈ کی طرف منہ کرتے ہوئے مسکرا کر بولے….
”لوجی ! سنیارے کا بیٹا تو اگر کلاس میں فسٹ آ گیا تو سونے کی گھڑی پہن لے گا….یہ جنات کی دنیا کا حافظ مظفر اگر خدانخواستہ کلاس میں اول پوزیشن لے گیا تو اسے کیا ملے گا انعام میں؟“
”لکڑی کا بنا ہوا کلاک ۔“میں منہ میں بڑبڑایا۔
سب بچے ہنس دیئے…. میں سنجیدہ ہو گیا۔ لیکن چونکہ میں ماسٹر دین محمد سے متاثر بھی تھا اور اساتذہ کا احترام کرنا میرے والد صاحب نے مجھے سکھایا تھا…. ان کی بات کے احترام میں کچھ لمحہ بعد میں بھی ہنسنے والوں کے ساتھ شریک ہو گیا…. ”لکڑی کا بنا ہوا کلاک“…. بچوں نے میر ا مذاق اڑانا شروع کر دیا….
”میرے تو تم بیٹے ہو…. میری تو خواہش ہے ….دعا بھی ہے کہ تم سب پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بنو اور اگر کبھی میں تمہیں راستے میں ملوں تو تم نے بھی سونے کی گھڑیاں پہنی ہو…. لیکن میرے لیے اطمنان کا باعث یہ سونے چاندی ہیرے جواہرات نہیں ہیں…. میرے لیے تو خوشی کا باعث وہ دن ہوگا جب میرے سارے شاگر د اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں، اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں اور میرا سر فخر سے بلند ہو….! (یہ کہتے ہوئے ماسٹر دین محمد پر عزم دکھائی دیے)….
”ماسٹر جی…. آپ کا بیٹا بھی تو پاک فوج میں کپتان تھا اور شہادت کے رتبے پر فائز ہوا…. سرتو فخر سے بلند ہو گیا۔“
”ہاں ہاں…. شکر الحمد للہ ….اللہ پاک نے مجھے اک نہایت خوبصورت، ذہین اور دلیر بیٹا عطا فرمایا جس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اپنی خوشی بلکہ خواہش پر پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور پھر مذہب اور پاکستان کی خاطر اپنی جان دے کر سرخرو ہوا اور جاتے جاتے میرا سر فخر سے بلند کر گیا۔“
ساری کلاس کھڑی ہو گئی سب نے دیر تک تالیاں بجائیں اور ماسٹر دین محمد کو دیر تک احترام اور محبت سے دیکھتے رہے….
ماسٹر جی کی آنکھوں میں آنسو تیر نے لگے…. لیکن انہوں نے بلیک بورڈ پر بسم اللہ لکھا اور بلندآواز میں بولے….
”شیطانو…. مجھے باتوں میں لگا لیتے ہو…. وقت ضائع نہیں کرنا…. مجھے ایک کیپٹن بیٹے کی شہادت پر فخر ہے لیکن تم سب کو بھی تو اس ملک کی ترقی اس کی عظمت کے لیے پڑھ لکھ کر کام کرنا ہے اس کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے….“
اب یہ اک ”مذاق“ بن گیا تھا…. سنیارے کے بیٹے کو سونے کی گھڑی ملے گی یا….
ہم سب کبھی کبھی آپس میں گپ شپ لگاتے ….”کیسی ہو گی سونے کی گھڑی ؟“
”کیا یہ ساری کی ساری سونے کی بنی ہوگی؟“
” یہ تو خاصی مہنگی ہوگی ….“
”میاں سنبھال کے رکھنا یہ سونے کی گھڑی…. یہ نہ ہو تم کلاس میں اول آجاؤ ….تمہیں حسب وعدہ سونے کی گھڑی ملے اور پھر تم گھڑی سمیت اغوا ہو جاؤ۔“
دینو کمہار کے بیٹے نے حیرت سے دیکھتے ہوئے اپنے خوف کا اظہار کیا تو سب قہقہے لگانے لگے
….خوب شور مچا لیکن وہ حسب معمول بات کر کے پھر سے سنجیدہ ہو گیا….
آج بہت سال بعد میں پاکستان کے سب سے بڑے بینک کی بہت بڑی بلڈنگ میں جار ہا تھا اور مجھے وہ دن یاد آ رہا تھا جب ہم اکٹھے ٹاٹ پر بیٹھ کر سخت سردی میں پڑھا کرتے تھے اور ماسٹر دین محمد ہمیں ”ایویں“ صبح صبح دو دو چھڑیاں لگاتے کہ ” پیارے بچو یہ ’تحفہ‘ تمہیں نیند سے بیدار کرنے کے لیے ہے….“
میں آج اس بینک میں ایک گریڈ انیس کے آفیسرے ملنے جارہا تھا جو دینو کمہار کا بیٹا تو تھا لیکن اپنی تعلیمی قابلیت کے بل بوتے پر آج اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہے….
ہم دونوں بغل گیر ہوئے ….اس دوران میری نظر اس کی کلائی پر پہنی سونے کی گھڑی پرپڑی….
” مظفر صاحب ! بہت شکریہ آپ تشریف لائے۔ ویسے میں نے بھی آپ کے دفتر آنا تھانئی ترقی پر مبارکباد دینے….“ دینو کمہار کے بیٹے نے محبت سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا….
”سر کار منیر سنیارے کے بیٹے نے تو ایک دن کےلئے سونے کی گھڑی پہنی تھی…. آپ نے اس وقت بھی سونے کی گھڑی پہن رکھی ہے…. یہ مقدر کی باتیں ہیں“….
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.