ہندو خاتون کا مسجد میں واویلا

100

سوشل میڈیا کی وساطت سے امریکی ریاست ورجینیا کی مسجد ایڈمز میں ”پھولن دیوی“نما ایک ہندو خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے،جو نماز عید کے موقع پرمسجد میں گھس کر منبر پر چڑھ گئی،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا۔ تمام نمازی بشمول بچے مسجد میں موجود تھے،غیر یقینی صورت حال کے باوجود حاضرین نے شدید ردعمل نہ دیا، بلکہ قانون کا راستہ اپنایا،مقامی پولیس کو اس واقعہ کی اطلاع کی،جس نے فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے اسے بزور طاقت مسجد کی حدود سے باہر نکالا، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مجموعی اور فطری طور پر مسلمان تشدد پسند نہیں،پھر انھوں ایک خاتون پر ہاتھ اٹھانے کو خلاف تہذیب خیال کیا کیونکہ وہ حد درجہ برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں،دوسرا یہ اگر کسی ریاست میں قانون کی عمل داری ہوتو کسی بھی ناگہانی صورت حال اور حساس معاملہ میں بھی قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ مذہبی جنونیت کو روکنے کا ایک راستہ قانون کی مکمل عمل داری بھی ہے۔
نجانے کیوں خاتون نے مذہبی تہوار کے موقع پر ایسا کیا، مسلم کیمونٹی نے کونسی اذیت اسے دی کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوگئی، اس کے باغیانہ رویہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے بارے میں اس کی ذہن سازی منفی انداز میں کی گئی۔ اس لئے اس نے عبادت گاہ میں اس وقت شوروغوغا کیا جب مسلمان نماز عیدمصروف تھے۔ واقعہ کی باز گشت میڈیا کی وساطت سے پوری دنیا میں سنائی دی، لیکن مسجد میں موجود بچوں کے لئے یہ صورت حال حیران کن تھی، بہت سے سوالات کاجواب ان کے والدین پر بھی ایک بوجھ ہوگا۔
یورپ اور مغربی دنیا میں مقیم مسلم برادری نائین الیون کے سانحہ کے بعد طویل عرصہ تک زیر عتاب اور انتہا پسندوں کے حملوں کی زد میں رہی ہے، اس کے پیچھے طاقتور میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے، جو مجاہدین کو شدت پسند بنانے کا فن جانتا ہے، لیکن ایک ہندو خاتون جس کا خمیر برصغیر کی مٹی سے اٹھا ہے،جس کے آباؤاجداد نے مسلمانوں کے درمیان آنکھ کھولی ہو،انکی، تہذیب،کلچر سے وہ بخوبی آگاہ ہو گی، تاریخ سے بھی واقف ہو،تو اس کا یوں مسجد میں گھس آنا اس کے احساس محرومی اور تعصب کو نمایاں کرتا ہے۔
اگر مسجد میں صرف پاکستانی کیمونٹی ہوتی تو بھی بات سمجھ میں آتی تھی کہ ہندو برادری کو ان سے خدا واسطے کا بیر ہے لیکن مسجد میں تو مختلف
قومیت کے افراد بحیثیت مسلم موجود تھے۔نجانے انھوں نے اس کا کیا تاثر لیا ہوگا۔
موصوفہ کو مسلم کمیونٹی پر برسنے سے پہلے اپنے مذہب کی اقدار اور روایات کا تو جائزہ لینا چاہئے تھا۔ہندو مذہب ذات پات میں اس حد تک منقسم ہے کہ اس گلوبل ولیج میں جس کا تصور بھی محال ہے،دلت جیسے طبقہ کو تو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا، یہ کل ہی کی بات ہے کہ ریاست آندھرا پردیش کے گاؤں کٹرا میں دو بچیوں کی آبروریزی کر کے انھیں قتل کیا گیا اور ان کی لاشوں کو درخت سے لٹکا دیا گیا، جس سماج میں انھیں انسانوں کی صف میں شامل ہی نہیں کیا جاتا وہاں بااثر طبقہ کو ان کے جرائم کی سزا کیا ملے گی۔
کانگریس جس نے بھارت کو سیکو لر ازم کا نعرہ دے کر تمام باسیوں کے لئے تحفظ کا دعویٰ کیاتھا،مودی سرکار نے اپنی ہندواتوا پا لیسی سے اس کو زمین بوس کر دیا ہے،اپنے متشددانہ رویہ کی وجہ سے اس نے ”Butcher of Gujrat“کا لقب اپنے نام کیا،مودی نے بطور وزیر اعظم بھی اقلیتوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، مسلم،سکھ،عیسائی سمیت کوئی بھی ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہے،کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں کوئی دنگا فساد اور قتل و غارت نہ ہو۔خود ہندو خواتین کی عزت آبرو انتہا ہندو تنظیموں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں،مسجد میں ہندو خاتون کا واویلا ہندو سرکار کی پالیسی کا عکاس لگتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلام امن، آشتی کا مذہب ہے،اس کے پیروکاروں کو حکم دیا گیا ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جس کے ہاتھ، زبان کے شر سے دوسرے محفوظ رہیں۔
امریکہ کی باسی خاتون کو یہ تو علم ہوگا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد مسلم کیمونٹی کو بر ے برے القابات سے پکارا جاتا،ان پر ذاتی حملے کیے جاتے تھے، ان کے خاندانوں کو تنگ کیا جاتا اور ڈیوٹی کے موقع پر انھیں ذہنی اذیت دی جاتی تھی، نفرت کے اس ماحول میں بھی اس طبقہ نے عدم برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا، حکمت اور حوصلہ مندی سے کام لیا، البتہ ہر قابل ذکر فورم پر ناانصافیو ں پر دبے الفاظ آواز ضرور بلند کی، تصویر کا ایک رخ دیکھنے کے بجائے زمینی حقائق کو سمجھنے کی دعوت دی، اسلامی فوبیا کا چرچہ مغربی دنیا میں رہا،اس کے باوجود کسی مسلمان نے کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کی بے حرمتی کا تصور بھی نہیں کیا،مقدس کتابوں اور ہستیوں کو عزت اور احترام دیا،عید کے مذہبی تہوار کے موقع پر ہندوستانی خاتون نے اپنا خبث باطن ظاہر کرکے اپنے ہندو سماج کی نمائندگی کی ہے اگر کسی سے انھیں کوئی شکوہ تھا تو متعلقہ فورم سے رجوع کرنا چاہئے تھا۔
ہندوستان میں بننے والی پی کے فلم جس میں مرکزی کردار عامر خان نے ادا کیا ہے، اس کی وساطت سے وہ یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ مذہب کی بنیادپرلڑنا، تقسیم کرنا،لوگوں کی مذہبی شناخت پر انھیں لوٹنا،انھیں قتل کرکے اسے جائز قرار دینا،مذہبی تعلیمات کو مسخ کر دینے کے مترادف ہے،بالی ووڈ کی مشہور زمانہ فلم ہندواتوا کلچر کے تناظر میں پیش کی گئی تھی، مسجد میں غل غپاڑہ کرنے والی ہندوستانی خاتون کا رویہ بتاتا ہے کہ اس نے ہندواتا کلچر کو امریکہ میں آباد کر نے کی کوشش کی ہے۔
اسلام ایک الہامی مذہب ہے،حضرت آدم علیہ السلام سے چلا آرہا ہے، اسکی تمام تعلیمات تا قیامت محفوظ ہیں، یہ پہلی سانس سے لے کر موت کی آخری ہچکی تک کی راہنمائی فرماتا ہے، آخری کتاب قرآن حکیم ہے جس کا موضوع انسان ہے، قیامت تک آنے والے انسان اس سے راہنمائی لے سکتے ہیں۔
آپ ہی کے دیس میں ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک بڑے مجمع میں ہزاروں ہندؤوں کو دائرہ اسلام میں داخل کر چکے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا، عید سعید کے مبارک موقع پر آپ بھی سیکھنے کی نیت سے مسجد میں داخل ہوتیں، عین ممکن تھا کہ آپ کے دل کی دنیا بھی بدل جاتی، مگر آپنے دوسرا راستہ منتخب کیا، پورے مجمع میں پولیس نے آپ کو دبوچ کر مسجد سے باہر کیا، پورے عالم میں آپ کی کیمونٹی کی جگ ہنسائی ہوئی،غالب امکان یہی ہے کہ اب کوئی دوسرا غیر مسلم مسجدمیں یوں گھسنے کا رسک نہیں لے گا،البتہ اسلامی تعلیمات کے حصول کے لئے امت کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں، غیر مسلموں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا امت سے افراد کی مذہبی ذمہ داری ہے۔
موصوفہ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہندو مت کی کوئی تاریخ اور سرکاری عقیدہ نہیں ہے یہ مختلف فرقوں اور عقائد کا مجموعہ ہے،اسکی پذیرائی بھی صرف ہندوستان تک محدود ہے، مگر اسلامی ممالک کی تعداد پچاس سے زائد ہے، روز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، یہی اسکی حقانیت کی پہچان ہے، اس کو تاقیامت قائم و دائم رہنا ہے، اسلام کے روشن چراغ کو پروپیگنڈہ کی پھونکوں سے جس نے بھی بجھانے کی کاوش کی وہی ناکام اور نا مراد رہا۔

تبصرے بند ہیں.