بیساکھی میلہ، سکھ یاتری پاکستان کے معترف

60

سکھ مذہب کے خالصہ جنم دن اور بیساکھی میلہ کے اختتام پر بھارت سمیت دنیا بھر سے آئے سیکڑوں سکھ یاتریوں نے شاندار انتظامات کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ سکھوں کے لئے تاریخی اقدامات کیے۔ بھائی چارے کی جو فضا پا کستان میں ہے دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔ یہاں اقلیتوں سے پیار جبکہ بھارت میں ظلم ہوتا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ پاکستان سے ملنے والاپیارکبھی نہیں بھول سکتے۔
بھارت سمیت امریکا، برطانیہ اور یورپ کے مختلف ممالک سے سکھ یاتریوں نے اپنی مذہبی رسومات ادا کیں اس موقع پر سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے۔ بھارتیوں کو جس طرح پاکستان میں سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، وہ چاہتے ہیں پاکستانیوں کو بھی بھارت میں اسی طرح سہولیات فراہم کی جائیں۔ بھارت سے کشیدگی کے باوجود پاکستان نے بھارتی سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کیے تھے۔مذہبی ہم آہنگی اور دونوں ممالک کے عوام کو قریب لانے کے لیے حکومت نے ویزے جاری کرنے کا اہتمام کیا۔ سکھ یاتریوں کاکہنا تھا کہ انہیں پاکستان میں نہایت عمدہ سہولیات ملی ہیں اور وہ دوبارہ پاکستان آنے کے خواہش مند ہیں۔
پاکستان میں سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کے پیروکاروں کو انتہائی عزت و احترام اور محبت دی جاتی ہے۔ سکھ مذہب کے مذہبی تہواروں پر بھارت سمیت پوری دنیا سے آنے والے سکھ یاتریوں کا گرمجوش استقبال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سکھوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل ہے۔ سکھوں کے مقدس مقامات، گردواروں کی حفاظت تعمیر و ترقی ہمارا قومی فریضہ ہے۔حکومت پاکستان مذاہب کے مابین رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دے رہی ہے اسی لئے دنیا ہمیں امن کے سفیر کے طور پر جانتی ہے۔ سکھ مسلم دوستی کا رشتہ مضبوط ہو رہا ہے۔ بھارت میں پاکستان کے خلاف جھو ٹا پرو پیگنڈا کیا جاتا ہے۔ حکومت نے سکھ قوم کے دلوں میں گھر کر لیا ہے۔
اس وقت پاکستان میں سکھ بہت کم تعداد میں آباد ہیں۔ بہت سے سکھ پنجاب کے صوبے میں آباد ہیں جو پرانے پنجاب کا ایک حصہ ہے جہاں سے سکھ مت کی شروعات ہوئی۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے درالحکومت پشاور میں بھی سکھ کافی تعداد کافی آباد ہیں۔ ننکانہ صاحب جو سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک کی جائے پیدائش ہے بھی پنجاب، پاکستان میں ہے۔
اٹھارہویں و انیسویں صدی میں سکھ طبقہ ایک طاقتور سیاسی قوت بن گیا اور مہاراجا رنجیت سنگھ نے سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی جس کا دارالحکومت لاہور شہر تھا جو آج پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ پنجاب میں سکھ برادری زیادہ تر لاہور، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد اور ننکانہ صاحب میں ہے۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے سکھ اور ہندو بھارت چلے گئے اور بھارت کے مسلمان پاکستان میں بس گئے۔ 1947ء میں آزادیِ پاکستان کے بعد سکھ برادری نے پاکستان میں منظم ہونا شروع کیا اور پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی بنائی تاکہ پاکستان میں سکھوں کے مقدس مقامات اور ورثوں کا تحفظ کیا جاسکے۔ حکومت پاکستان نے بھارتی سکھوں کو پاکستان میں آنے اور اپنے مقدس مقامات کی یاترا کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے اور پاکستانی سکھوں کو بھارت جانے کی بھی اجازت ہے۔1947ء میں تقسیم ہند سے پہلے تمام سکھ پاکستان میں بستے تھے، خاص کر خطہ پنجاب میں اور بطور کسان، تاجر اور کاروباری ان کا معیشت میں بہت اہم کردار تھا۔ پنجاب، پاکستان کے دارالحکومت لاہور آج بھی سکھوں کی کئی اہم مذہبی مقامات کی جگہ ہے، جس میں رنجیت سنگھ کی سمادھی بھی ہے۔ ننکانہ صاحب میں گردوارہ جنم استھان سمیت 9 گردوارے ہیں اور یہ شہر سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک کی جائے پیدائش بھی ہے۔ ننکانہ صاحب کا ہر گردوارہ بابا گرو نانک کی زندگی کے مختلف واقعات سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ شہر دنیا بھر کے سکھوں کی یاترا کا اہم مقام ہے۔
کرتارپور سکھوں کیلئے انتہائی اہم اور مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرونانک جی نے اپنی زندگی کے آخری18 سال گزارے۔ دربار صاحب کرتارپور پاکستان کے ضلع نارووال میں بھارتی سرحد سے 4.5 کلومیٹر دور واقع ہے۔ 1947 کی تقسیم کے بعد یہ علاقہ پاکستان کے حصے میں آیا۔یہ مقام سکھ برادری کے لیے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ لیکن دنیا میں بسنے والے تقریباً تین کروڑ سکھوں کی اکثریت گذشتہ 71 برس سے اس کی زیارت سے محروم رہی ہے۔ اس کی وجہ شروع دن سے دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی ہے۔ اب تک بھارتی سکھ چار کلومیٹر دور سرحد کے اُس پار سے کرتار پور گرودوارہ کو دیکھ سکتے تھے۔ انڈین بارڈر سکیورٹی فورس نے سرحد پر ایک ’درشن استھل‘ قائم کر رکھا ہے جہاں سے دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کیا جا سکتا تھا۔ راستے میں دریائے راوی اور نالہ بئیں پڑتے ہیں۔گرودوارے کی موجودہ عمارت 1925 میں تعمیر کی گئی کیونکہ اس کی اصل حالت سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھی۔لہٰذا2004 میں اسے پاکستان کی طرف نے بحال کیا گیا۔
کرتارپور راہداری بھارت اور پاکستان کے مابین مجوزہ سرحدی راہداری ہے جس کا 9 نومبر 2018 میں افتتاح کیا گیا تھا۔ یہ بھارتی پنجاب میں واقع ڈیرہ بابا نانک صاحب کو پاکستان کے علاقہ کرتارپور میں واقع گردوارہ دربار صاحب کی مقدس عبادت گاہ سے منسلک کرتی ہے۔ اس مجوزہ راہداری کا مقصد ہندوستان کے مذہبی عقیدت مندوں کو پاک ہند سرحد سے محض 4.7 کلومیٹر دور واقع گردوارہ دربار صاحب کی زیارت کرنے میں آسانی پیدا کرنا ہے، جس کے ذریعے بھارتی زائرین، بطور خاص سکھ یاتری بلا ویزا گردوارہ دربار صاحب کرتارپور کی زیارت کی سہولت دی گئی ہے۔

تبصرے بند ہیں.