مفت آٹا کی تقسیم۔۔۔۔!

68

وفاقی حکومت نے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر کم آمدن افراد کی اعانت کے لئے رمضان المبارک کے لئے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مفت آٹے کی تقسیم کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ رمضان مبار ک کے آخری ایام کے ساتھ اگرچہ اختتام پذیر ہو چکا ہے، تاہم اپنے پیچھے کئی سوالات بھی چھوڑ گیا ہے۔ کیا کم آمدن افراد کی اعانت کے لئے مفت آٹے کی تقسیم کے علاوہ کوئی اور طریقہ کار یا میکینزم اختیار نہیں کیا جا سکتا تھا؟ پھر مفت آٹے کی تقسیم جو بنیادی طور پر کم آمدن افراد کی اعانت کے لئے شروع کی گئی تھی، اس سے صرف کم آمدن افراد ہی مستفید ہوئے یا جس کا داؤ لگا اس نے اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے؟ پھر اس سکیم جس کا بڑا مقصد کم آمدن افراد کی اعانت تھا، اسے حکومت نے سستی شہرت اور وقتی مقبولیت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ کر تو اختیار نہیں کیا؟ پھر کیا کم آمدن افراد کی اعانت کے لئے پہلے سے موجود بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام وغیرہ میں وسعت لا کر اور اس کو مزید فعال بنا کر کم آمدن افراد کی نقد رقوم کے ذریعے اعانت کے مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا؟ پھر کم آمدن افراد کو 10کلو آٹے کے ایک یا دو بیگ (تھیلے) دے کر ان کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے یا اس ہٹ کر یہ ضروری تھا کہ ان کی نقد رقوم سے اعانت کی جاتی، جس سے وہ آٹے کے علاوہ اپنی دیگر ضروریات بھی پوری کر سکتے۔ غرضیکہ مفت آٹے کی تقسیم کی سکیم کے بارے میں یہ اور اس طرح کے سوالات اذہان میں موجود ہیں۔ان کے ساتھ ایک اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ مفت آٹے کی تقسیم کے پوائنٹ پر جس طرح ہجوم اکٹھا ہوتا رہا، طویل قطاریں، افرا تفری اور بھگدڑ مچتی رہی اور دھکم پیل کے درمیان بے قابو ہجوم کے پیروں کے نیچے کچل کر کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، کئی افراد بے ہوش ہوئے، زور آور افراد دو دو یا دو سے بھی زائد آٹے کے بیگ لینے میں کامیاب رہے، جبکہ عمر رسیدہ اور کمزور افراد آٹے کا ایک آدھ تھیلا ہی لینے میں کامیاب ہو سکے یا اس سے بھی محروم رہے وغیرہ بھی ایسے پہلو ہیں جن کے مظاہر کم و بیش ہر چھوٹے بڑے شہر میں مفت آٹا کی تقسیم کے مراکز پر دیکھنے کو ملے۔
تین چار دن قبل یہاں پنڈی میں مری روڈ پر لیاقت باغ کے جنوب مشرقی سرے پر RDAکے دفتر سے ملحقہ مفت آٹے کی تقسیم کے لئے مخصوص جگہ پر اور اس کے ساتھ لیاقت باغ کے شمالی حصے میں لیاقت روڈ پر آگے گارڈ ن کالج تک مفت آٹے کی تقسیم کے ایک دوسرے مرکز یا پوائنٹ پر راقم نے جو مناظر دیکھے وہ اگرچہ دل دوز نہیں تھے، لیکن ایسے خوش کن بھی نہیں تھے کہ ان سے اطمینان اور سکون نصیب ہوتا۔ راقم مری روڈ پر مریڑ چوک سے آگے لیاقت باغ کی طرف جارہا تھا۔دور سے سڑک اور سڑک کی بائیں طرف افرا تفری کا شکار ہجوم کو دیکھ کر پریشان ہوا کہ اللہ جانے کیا ماجرا ہے اور اتنے زیادہ لوگ کھڑے نظر آرہے اور سڑک بلا ک اور ٹریفک پھنسی نظر آتی ہے۔ خیر آگے بڑھا تو بائیں طرف سیکڑوں کی تعداد میں موٹر سائیکلیں، تھوڑی سی سائیکلیں اور درجنوں کی تعداد میں سوزوکی اور دوسری چھوٹی لوڈنگ گاڑیاں نظر آئیں اور ان کے ساتھ ہی آگے ہجوم کے اندر دور تک پھیلی ہوئی خواتین کی ایک لمبی قطار نظر آئی۔ کچھ ایسے موٹر سائیکل سوار بھی نظرآئے جن میں سے کسی نے ایک تو کسی ایک سے زیادہ سبز رنگ کے کپڑے والے آٹے والے تھیلے اپنی موٹر سائیکلوں پر لاد رکھے تھے۔ آگے بڑھا تو آر ڈی اے کے سامنے ایک طرف ٹریفک وارڈ ن اور دوسرے پولیس اہلکار کھڑے نظر آئے۔ راقم کو اندازہ ہو گیا کہ یہاں مفت آٹے کی تقسیم ہو رہی ہے۔ راقم نے آگے کالج روڈ کی طرف جانا تھا۔ لیاقت روڈ پر اسلامیہ ہائی سکول سے کچھ آگے Uٹرن سے بمشکل گاڑی واپس موڑ سکا کہ ادھر بھی لوگوں کا ہجوم تھا جو مفت آٹا لینے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ سچی بات ہے اتوار کی صبح مفت آٹا کی تقسیم کے مراکز یا اس کے لئے مخصوص جگہوں پر یہ مناظر دیکھ کر طبیعت مکدّرہوئی، دل دکھا اور افسوس ہوا کہ بحیثیت مجموعی خود غرضی، بد نظمی، افرا تفری، بے صبری، دھینگا مشتی اور جہاں ہو سکے داؤ لگانے کے پہلو ہمارے قومی وجود کا حصہ بن چکے ہیں۔ مفت آٹے کی تقسیم بنیادی طور پر کم آمدن افراد کی اعانت کے لئے شروع کی گئی، موٹر سائیکل مالکان تو چلئے کسی حد تک کم آمدنی والے افراد میں شامل ہو سکے ہیں، لیکن گاڑی مالکان کا شمار تو بہر کیف اس طبقے میں نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس طرح کے لوگ بھی مفت آٹے کے تھیلے لینے میں پیش پیش رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر خود غرضی یا دوسروں کا حق مارنے کی اور کیا صورت ہو سکتی ہے۔خیر یہ صورتحال کا ایک پہلو تھا، دیکھتے ہیں جناب وزیراعظم کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟
جب جناب وزیر اعظم کا اگلے دن مرید کے میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مفت آٹا کی تقسیم کے بارے میں کہنا تھا کہ مفت آٹا سکیم میری زندگی کا سب سے بڑا رسکی (Risky)منصوبہ تھا۔ مفت آٹا سکیم کا میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ میں چاہتا تھا کہ مفت آٹا دینے کے بجائے کم قیمت پر آٹا دیا جائے۔ مفت آٹا دینے کی تجویز نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی تھی۔ اس سکیم سے تقریباً 10کروڑ لوگوں تک مفت آٹے کی ترسیل ہوئی ہے۔ پنجاب میں ایک ماہ کے دوران فری آٹا دینے پر 65ارب روپے لگے۔نواز شریف اور مخلوط حکومت کو احساس ہے مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے اس لئے فری آٹا دینے کا انتظام کیا۔
جناب وزیر اعظم نے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے کہنے پر مفت آٹے کی سکیم کی منظوری دی، جس پر 65ارب روپے کی خطیر رقم خرچ ہوئی۔ دیکھنا ہو گا کہ اتنی بھاری رقم سے کم آمدن لوگوں میں مفت آٹے کی تقسیم کے بجائے کسی اور صورت میں بہتر اعانت نہیں کی جا سکتی تھی؟یہ درست ہے کہ آٹا ہماری بنیاد ی ضرورت ہے، اس سے روٹیاں پکتی ہیں جو ہماری خوراک کا بنیادی جزو ہیں، لیکن آٹے سے ہٹ کر بھی کچھ ضروری اشیاء ہیں جو آٹے سے بننے والی روٹیوں کے علاوہ ہماری روز مرہ خورا ک کا لازمی حصہ ہیں۔دالیں، چینی، گھی، آئل اور سبزیاں وغیرہ۔ آٹے کے ایک یا دو تھیلے سروں پر اٹھا کر یا بازوؤں میں سمیٹ کر یا موٹر سائیکلوں کی ٹینکیوں پر لے کر جانے اور گھروں تک پہنچا دینے میں کامیاب ہونے والوں کی آٹے کی ضرورت تو پوری ہو گئی ہو گی لیکن باقی ضروری اشیائے خور و نوش کی فراہمی پھر بھی ایک مسئلہ رہا ہو گا، پھر وہ کمزور لوگ جن کے لئے قطاروں میں لگ کر یا ہجوم میں شامل ہو کر ہڑبونگ اور افراتفری کے عالم میں آٹے کے توڑے حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف رہا ہوگا۔ان کے گھر گھرانے کی آٹے کی ضروریات بھی یقینا پوری نہیں ہو سکی ہوں گی۔ غرضیکہ مفت آٹے کی تقسیم کی سکیم یا منصوبہ جس پر 65ارب کی خطیر رقم خرچ ہو ئی ہے اس کے بجائے کسی اور صورت میں کم آمدن افراد کی اعانت کی جاتی تو راقم کے خیال میں زیادہ سود مند ہوتی۔10کلو آٹے کا تھیلا یا توڑا اور اس کے ساتھ دو کلو چینی، دو کلو گھی یا آئل اور ایک یا دو کلو دالوں وغیرہ پر مشتمل راشن پیکٹ بنا کر تقسیم کئے جاسکے تھے۔ لیکن اس کے لئے جس منصوبہ بندی، محنت اور حسن انتظام کی ضرورت ہو سکتی ہے وہ کہاں سے لاتے۔
چلیں مفت آٹا تقسیم کا منصوبہ مکمل ہوا، لیکن وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے بارے میں یہ تصور مزید راسخ ہوا کہ ا ن کی صلاحیتیں اور کارکردگی جس کا مظاہرہ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں وہ اب بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ ان کی سوچ، ان کی اپروچ، ان کا ویژن، ان کی کارکردگی، ان کی پھرتیاں، ان کی بھاگ دوڑ وغیرہ، ان سب سے ایک ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر کا روپ تو جھلکتا ہے لیکن ملک کے وزیر اعظم یا چیف ایگزیکٹو کا عکس نظر نہیں آتا۔

تبصرے بند ہیں.