جنگ کا اصول ہے دشمن کو مارنے کی بجائے اسے زخمی کیا جائے۔ زخمی دشمن مرے ہوئے سے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔آپ دیکھیں کہ جنگ کے دوران جو لوگ مارے جاتے ہیں اس کا لڑنے والی فوج پر زیادہ بوجھ نہیں ہوتا۔ جبکہ زخمی سپاہی کی دیکھ بھال کے لئے ایک پورا نظام حرکت میں رہتا ہے۔ فرسٹ ایڈ سے لے کر اسے اسپتال منتقل کرنے تک ایک متوازی فورس استعمال کرنا پڑتی ہے۔ آپ نے ایکشن فلموں میں کئی بار دیکھا ہو گا کہ جب ایک سپاہی زخمی ہوتا ہے تو اس کا ساتھی ایک طرف دشمن سے جنگ کر رہا ہوتا ہے، دوسری طرف اپنے زخمی ساتھی کو سنبھال رہا ہوتا ہے۔ ایک ہاتھ سے بندوق اور دوسرے ہاتھ میں فون کے ذریعے اپنے ساتھی کو بچانے کے لئے مدد مانگ رہا ہوتا ہے۔یہاں سے دشمن کا فائد ہ شروع ہوتا ہے۔ جنگی زبان میں اسے ڈس انگیج منٹ کہتے ہیں۔ یعنی دشمن کو الجھا کر رکھنا۔ اس میں کوئی شک نہیں انسانی جان سے قیمتی کوئی چیز نہیں۔ لیکن جنگ میں زخمی فوجی مرے ہوئے فوجی سے زیادہ قیمتی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ رْول زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی ایسے ہی اپلائی کیا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے سماجی رویوں کا جائزہ لیں تو ہمیں ادراک ہوتا ہے کہ ہم کسی دوسرے کو اچھا کام کرتے دیکھ کر خوش نہیں ہوتے۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر یہ اچھا کام ہم خود نہیں کر سکتے تو دوسرا کیوں کر رہا ہے۔ پھر ہم اس کو ڈس انگیج رکھنے کی ہر ممکن کو شش کرتے ہیں۔ دفاتر میں اگر کوئی ایفیشنٹ بندہ اچھے طریقے سے کام کر رہا ہو تو نالائقوں کا ٹولہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ اس افسر کی ساکھ خراب کی جائے، اس کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بْن کر اس کا ٹرانسفر کرا دیا جائے۔ یہی حال آج کل ہماری سیاست کا ہے۔ اگر آپ عمران خان کی سیاست کا بغور جائزہ لیں تو ان کی حکمت عملی مستقل طور پر موجودہ حکومت زخمی کرنے پر لگی ہے۔ اس ساری سیاسی لڑائی میں ملک کوکتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کا خان صاحب کو پورا ادراک ہے۔ لیکن اقتدار کی خواہش کے گھوڑے پر سوار ہو کر وہ ہر اس شے کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں جو ان کے اور کرسی کے درمیان حائل ہے۔ اس کے لئے کوئی بھی حد عبور کرنے سے دریغ نہیں کر رہے۔ پاکستان کو موجودہ معاشی بحران تک پہنچانے کا سلسلہ2014 کی دھرنوں سے ہی شروع ہوچکاتھا۔ جب اس وجہ سے چین کے صدر شی جن پنگ کا تاریخی دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ میاں نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں دگرگوں معیشت کو سنبھالا دے کر 6 فیصد سالانہ ترقی کی راہ پر ڈال دیا گیا۔ دنیا بھر کے بڑے معاشی پنڈت پاکستان کو 2028 تک دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں کھڑا دیکھ رہے تھے۔ لیکن وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے پس پردہ اس تحریک کے تانے بانے بنے اور ملک کو درست معاشی اور خارجہ پالیسی کی پٹری سے اتارنے کے لئے عمران خان کو مسلط کیا۔ ملک میں حقیقی سیاسی قیادت کو ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا۔اس سارے تناظر میں سیاسی جماعتوں کے پاس دو ہی آپشن تھے کہ وہ اپنی سیاست بچائیں یا ملک۔ لہٰذا ملک بچانے کا فیصلہ کیا گیا۔ عمران خان ملک کے پہلے سابقہ وزیر اعظم ہیں جنھیں عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا ہے۔ اسی وقت یہ تماشا شروع کر دیا گیا۔ جس طرح عدم اعتماد کو روکنے کے لئے آئین کی خلاف ورزی کی گئی۔ مجبوراًسپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ خان صاحب نے اسی وقت طے کر لیا تھا وہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔ بطور سیاست کے طالب علم کے طور پر مجھے یہ ادراک تھا کہ جو کچھ کیا جارہا ہے اس کا نتیجہ ملک کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ بطور ذمہ دار پاکستانی میں مستقل طورپر تقریر و تحریر کے ذریعے اس امر کی نشاندہی کرتا رہا ہوں۔ گذشتہ رجیم پر میں بہت سے کالم لکھے۔ عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد بھی اپنی روش پر قائم ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو زخمی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس سیاسی مخالفت میں ریاست کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ عمران خان جب اقتدار سے باہر نکلے تو ایک جمہوری لیڈر کے طور پر انھیں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر سیاسی عمل کو آگے بڑھانا چاہئے تھا۔ لیکن ان کاخمیر ہی گالی، طعنہ اور سڑکوں کی سیاست سے اٹھایا گیاہے۔ لہٰذا وہ پارلیمانی سیاست کے قائل ہی نہیں ہیں۔اس لئے اقتدار سے باہرآتے ہی ہٹ اینڈ رن پالیسی کے تحت پی ڈی ایم حکومت کو زخمی کرنا شروع کر دیا۔ انھوں نے اپنے اقتدار سے باہر آنے کو امریکی سازش قرار دیا۔ جلسوں میں کاغذلہر ا لہرا کے سادہ عوام کو یہ باور کرایا کہ پی ڈٰ ی ایم کی حکومت امریکی سازش کا نتیجہ ہے۔ تاکہ پی ڈٰ ایم حکومت کے وجود پر سوالیہ نشان لگا یا جائے۔ پراپیگنڈا بڑی ظالم چیز ہے۔ جب ایک چیز کو بار بار دہرایا جائے تو لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ شاید اس میں کچھ تو گڑ بڑ ہو گی۔ جبکہ اب وہ خود اس الزام سے یو ٹرن لے چکے ہیں۔ عمران خان صاحب نے اپنے مخالفین کو زخمی کرنے کے لئے سیاسی عدم استحکام کی فضا پیدا کر دی ہے۔ وہ روزانہ میڈیا پر بیٹھ کر لمبی لمبی تقریر یں کرتے ہیں۔ اداروں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ ان کا ایک ہی مشن ہے کہ کسی بھی ادارے کو کام نہ کرنے دیا جائے۔ جیساکہ وزارت داخلہ کا کام ملک میں امن وامان کو برقرار رکھنا ہے۔ عمران خان کبھی لانگ مارچ تو کبھی جیل بھر و تحریک شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے وزارت اپنا اصل کام چھوڑ کر ان مسئلو ں میں الجھ جاتی ہے۔ وزارت خزانہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے انٹرنیشنل فنانشل اداروں اور فارن انوسٹر زکو لانے کے لئے کوشاں تھی تو خان صاحب خیبر پختون خوا اور پنجاب اسمبلی توڑ کو نیا سیاسی بحران پیدا کر دیا۔ عمران خان جانتے تھے کہ ان کے دور میں آئی ایم ایف کی مانی گئی شرائط کے نتیجے میں ملک معاشی بحران کا شکار ہو جائے گا۔ اس لئے انھوں نے احتجاج سیاست کے ذریعے ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ کوئی ملک اور بین الاقوامی ادارہ پاکستان کی مدد کا رسک نہ لے سکے۔ اگر انھیں عدالت طلب کر لے تو ہزاروں کارکنوں کو ساتھ لے کر تماشا لگا لیتے ہیں۔ ان کا ایک بیان سٹاک مارکیٹ گرانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ انھی کے بیانات اور تحریکوں کی وجہ سے ڈالر سٹاک ہو گیا اور کی شرح تبادلہ بے قابو ہو گئی۔ پاکستان کا قرض دنوں میں کئی سو ارب ڈالر بڑھ گیا۔ جس کا فائدہ آئی ایم ایف نے اٹھایا۔ حکومت کو ایسی سخت شرائط ماننے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ جس سے عام پاکستانی کی زندگی مشکل ترین ہو گئی ہے۔ ایسا تو کوئی دشمن ہی کر سکتا ہے وہ قوم کا لیڈر نہیں ہو سکتا بقول شاعر
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ فوج کے سربراہ بارہا کہہ چکے کہ ادارہ اے پولیٹیکل پالیسی اختیار کر چکا ہے۔ لیکن یہ آئے دن انھیں سیاست میں گھسیٹ کر لے آتے ہیں۔ یہ لوئر کورٹس کے فیصلے بھی سپریم کورٹ سے کروانا چاہتے ہیں۔ یہ ہر وہ کام کررہے ہیں جس سے سیاسی عدم استحکام بڑھتا رہے۔ یہ اداروں کو مجبور کر رہے ہیں کہ انھیں پھر سے اقتدار دیا جائے۔ انھیں اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کہ ان کی اس ضد سے ملک دیوالیہ ہو رہا ہے۔اس کا فیصلہ اب تاریخ کر ے گی کہ اصل میر جعفر اور میر صادق کون تھا؟ کس نے کس کے کہنے پر اپنے وطن کی مٹی سے بے وفائی کی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.