طویل انتظار کے بعد پنجاب میں الیکشن کی تاریخ آگئی صدر نے الیکشن کمیشن کی تجویز پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دیدی سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کا محفوظ فیصلہ سنادیا جس میں دونوں صوبوں میں 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کی جانب سے سامنے آنے والا یہ فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت کے ساتھ جاری کیا گیا ہے جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ جو ان چار ججوں میں شامل تھے جنہوں نے 23 فروری کے حکم میں اضافی نوٹ تحریر کیے تھے، انہوں نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور از خود نوٹس کو مسترد کر دیا۔ پارلیمانی جمہوریت میں انتخابات اہم عنصر ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خیبرپختونخوا کی حد تک گورنر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہ کرے تو صدر مملکت تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت سے مشاورت کرے، 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت سے پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔اور اب 30اپریل کے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دے دی گئی ہے
اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جہاں گورنر نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کیا، وہاں انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی جانب سے ادا کی جانی چاہیے، جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تو حکومتی نمائندے اور وفاقی وزیر قانون کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا یہی سمجھتے ہیں کہ حالات سازگار ہوں تو بھی آئین انتخابات کے انعقاد کا حق الیکشن کمیش اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو دیتا ہے، اس بحث کو چھوڑ دیں۔وزیر قانون نے کہا کہ آج کے فیصلے میں 2 جج صاحبان نے 23 فروری کے اختلافی نوٹس سے اتفاق کیا، اس فیصلے کو پڑھنے کے بعد ہمارا یہ موقف ہے کہ یہ پٹیشنز 3-4 سے مسترد ہوگئی ہیں، اب یہ فیصلہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت کارروائی میں ہوجانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلے میں نظر ثانی والی بات نہیں، فیصلہ واضح ہو تو نظرثانی والی بات نہیں ہوتی، اگر کسی کو اختلاف ہوا تو جاکر تشریح کرالیں گے۔
عمران خان نے بھی انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے اور پھر عمران خان نے یہاں پر بھی ایک بات سامنے لے کر آئے جس دن الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا گیا عمران خان نے کہا کہ ہم جیل بھرو تحریک معطل کرتے ہیں اور جو ان کے گرفتار رہنما اور نظربند تھے ان پر سے بھی پابندی ہٹا دی گئی مریم نواز نے گوجرانوالہ میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان پر بہت تنقید کی وہ یہ بات بھول گئی تھی کہ حکومت ان کی ہے اور تمام معاملات اس وقت خراب ہیں وہ سب سے بہتر جانتے ہیں تصادم عمران خان نے گزشتہ دنوں صحافیوں سے اور نمبر بنانے کے لیے کہا کہ میری اسٹیبلشمنٹ سے کسی بھی قسم کی کوئی لڑائی نہیں ہے ملک کی بہتری کے لیے ان سے بات کرنے کو بھی تیار ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں ایسا لگتا ہے کہ آرمی چیف مجھے اپنا دشمن سمجھے بیٹھے ہیں فوج کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے عمران خان نے یہاں ایک بار پھر کہا کہ ہمارے اسٹیبلشمنٹ کو نہیں پتا کہ سیاست کیا ہوتی ہے جیل میں ڈالنے سے ووٹ زیادہ کرتی ہیں تو میں یہ عمران خان سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا آپ خود کو ایک بار پھر اپنی سیاسی مقاصد کا نشانہ بنا رہے ہیں؟
عمران خان نے کہا کہ اہلیہ اور مجھ پہ آئی کرپشن کا کیس ثابت نہیں ہو سکتا بے شک آرمی چیف میرے خلاف کوئی بھی کرپشن کا کیس نکال لیں میں یہ سمجھتی ہوں کہ ایسا تو شہباز شریف نے بھی کہا تھا کہ میرے خلاف ایک پرسنٹ کی بھی کرپشن ثابت ہوئی تو میں سیاست چھوڑ دوں گا عمران خان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ میں بالکل گھٹنے ٹیک دوں تو یہ بالکل نہیں ہو سکتا زو لگایا گیا کہ پرویز الٰہی ساتھ چھوڑ دیں مگر اب ہم نے پرویز الٰہی کے ساتھ وفاداری دکھانی ہے میں کسی کے ساتھ بے وفائی نہیں کر سکتا پوچھنا یہ چاہتی ہوں کہ سیاستدان آپس میں ہی وفاداری دکھاتے رہیں گے یا عوام کا بھی سوچیں گے ہمارے سیاستدانوں کو وفاداری کے کھیل سے نکلنا ہوگا اس ملاقات میں عمران خان نے ایک بات کہی کہ کچھ مخصوص نشستوں پر خواتین چاہتی ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کافیصلہ کرلیا تو قتل عام ہو جائے گا کیونکہ عمران خان کی ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے جب پہلے بھی اقتدار سنبھالنا تھا تو وہ اقتدار میں آنے سے پہلے ہی آپ نے وزیر خزانہ کا نام عوام کو بتا چکے تھے مگر آنے کے بعد کچھ اچھی پروگریس نہ دے سکے عمران خان چاہتے ہیں کہ جیسے پنجاب میں انتخابات ہونے جارہے ہیں اسی کے ساتھ عام انتخابات بھی کروا دیے جائیں تاکہ ملک میں خرچہ کم ہو اور عمران خان نے بہت امید سے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کے امپائر کے باوجود ہم الیکشن جیتیں گے اگر دیکھا جائے تو اس وقت حکومت کی پوزیشن بہت ہی کمزور نظر آ رہی ہے دیکھنے میں لگتا ہے کہ آصف زرداری یہاں پر نون لیگ کے ساتھ بھی بہت بڑا کھیل کھیل گئے وزیراعظم ان کی پارٹی سے منتخب کرکے دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی نے جو نون لیگ کے ساتھ کھیلا وہ بہت بڑا کھیل ہے وزیراعظم کا عہدہ ان کی پارٹی کو دیکر ایسے ثابت کیا کہ کہ وہ بہت معصوم ہیں ان کو تو کچھ پتہ ہی نہیں اور نون لیگ پر ہنسی آتی ہے کسی کے کہنے پر انہوں نے خوشی خوشی ملک کے حالات میں وزیراعظم کا عہدہ قبول کیسے کر لیا الیکشن سال آ گیا ہے اب عوام آپ لوگوں کو بتائیں گی کہ کون سی پارٹی کتنے پانی میں ہے جتنا کھیل عوام کے ساتھ کھیلا گیا اور جتنے فوٹو پر ڈرامے ہر پارٹی کی جانب سے عوام کو دکھائے گئے عوام کو ایسا گھمایا گیا کہ عوام ہی کہنے لگی کہ سب مایا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.