کہانی محبت کی زندہ رہے گی ……(تیسری و آخری قسط)

60

سوشل میڈیا اور اخبار میں میرے پڑھنے والے امجد اسلام امجد مرحوم کی خوبیوں اور یادوں پر میرے اس تیسرے کالم کے بعد شاید بور ہونا شروع ہو جائیں کیونکہ ہمارے بے شمار لوگوں کو سیاست کا گند پڑھنے اور اس میں پڑنے کی اتنی عادت ہو چکی ہے کسی اچھے موضوع پر کچھ پڑھنا اْن کے لئے باعث بوریت ہوتا ہے، مگر میں اس کی پروا کئے بغیر امجد اسلام امجد کی پاکستان کے لئے خدمات اور اپنے ساتھ اْن کی طویل رفاقت پر اپنی بات مکمل کئے بغیر نہیں رہ سکوں گا، سیاست جائے بھاڑ میں، اس وقت محبت عام کرنے کی ضرورت ہے، یہ میرا نہیں امجد اسلام امجد کا مشن تھا،ہم تو اس میں بس اپنا تھوڑا بہت حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، مرحوم ایک ایسی غیر متنازعہ شخصیت تھے جنہوں نے عمر بھر صرف ایک کام کیا محبت کی، اْن کی محبت کسی فرد کے لئے نہیں تھی، نہ اْن کی شاعری کسی فرد کے لئے تھی، اْنہوں نے محبت کو ایسا سمندر بنا دیا تھا جس کا کہیں کوئی کنارہ دکھائی نہیں دیتا تھا، اْن کی شاعری سمندروں کی شاعری تھی محبتوں کی شاعری تھی گیتوں کی شاعری تھی، پھولوں کی شاعری تھی، اْنہوں نے غزلیں بھی بہت لکھیں مگر جو مقام اْن کی نظموں کو ملا وہ ن م راشد کے علاوہ شاید ہی ہماری شاعری کی تاریخ میں اور کسی کو ملا ہو، ہمارے شاعری میں جو مقام”غزل“ کو حاصل ہے”نظم“ کبھی اْس کے قریب نہیں پھٹکی، امجد اسلام امجد نے ”نظم“ کو وہ حْسن بخشا ہمارے بے شمار شعراء کرام نے نظمیں لکھنی شروع کر دیں، مگر اْن جیسی نظمیں کوئی نہیں لکھ سکا، وہ اس حوالے سے بھی خوش قسمت تھے جتنی محبت وہ لوگوں سے کرتے تھے اْس سے کہیں زیادہ محبت لوگ اْن سے کرتے تھے، ہمارے ہاں عموماًیہ ہوتا ہے اللہ جب کسی کو بہت زیادہ عزت اور شہرت بخش دیتا ہے اْس کے حاسدین کی تعداد نمک میں آٹے کے برابر ہو جاتی ہے، امجد اسلام امجد اس حوالے سے بھی خوش قسمت تھے اْن کے حاسدین اور دْشمنوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی، کوئی بڑا بدبخت ہوگا جس نے اْن جیسے مجسمہ محبت سے کوئی بغض رکھا یا حسد کیا، دوسروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ اس قدر محتاط ہوتے اور ایسے الفاظ کا چْناؤ کرتے جو صرف ایک اعلیٰ ظرف اور بڑے دل والا شخص ہی کر سکتا ہے، کسی کی دل آزاری کا کوئی تصور تک اْن کے ہاں نہیں تھا، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے وہ محبت کرتے تھے، اگلے روز میں نیو نیوز پر برادرم وصی شاہ کا شو دیکھ رہا تھا، اس شو کی ٹیم جب اْن سے سیاسی سوالات کر رہی تھی میرا خیال تھا ایک تو وہ عمران خان کے ساتھ اپنی محبت کو چْھپا نہیں سکیں گے، دوسرے خان صاحب کے سیاسی مخالفین خصوصاًشریف برادران کو خوب رگڑا لگائیں گے، اْنہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا، تمام سیاسی سوالات کے جوابات میں صرف پاکستان سے محبت ہی جھلکتی رہی۔۔ وہ اپنی تمام ذمہ داریاں اپنے تمام فرائض پورے کر کے دْنیا سے گئے، آخری ایام میں بے اطمینانی اْنہیں صرف مْلکی حالات کی تھی، اس حوالے سے وہ بہت فکر مند تھے، وہ پاکستان کو اپنی شاعری کی طرح روشن اور خوبصورت دیکھنا چاہتے تھے، بْجھا بْجھا اْداس اور ویران پاکستان اْن کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھا، پاکستانی ادب کی حالت زار پر بھی وہ اْداس رہتے تھے، یہ بات اْن کے لئے باعث تشویش تھی کہ جتنی کتابیں ہماری لائبریریوں میں ہونی چاہئیں اْتنی اب فْٹ پاتھوں پر ہوتی ہیں، اگلے روز برادرم ضیاء الحق نقشبندی نے اْن کی یادوں کے چراغ جلائے، اس تقریب میں اْن کے صاحبزادے ذیشان امجد نے بتایا ”اْن کے عظیم والد 79 کتابوں کے خالق تھے، اْن کی عمر بھی 79 برس تھی، اْن کا شاید ہی کوئی روز ایسا ہوگا جب کچھ نہ کچھ اْنہوں نے نہ لکھا ہو، اور اْن پر جو لکھا گیا اْس کا شمار ہی ممکن نہیں، پی ایچ ڈی کے کئی مقالے بھی اْن پر لکھے گئے، کئی مقالے اب بھی لکھے جا رہے ہیں، البتہ اب معاشرے میں روز بروز بڑھتی ہوئی ”بے ادبی“ خصوصاً لکھنے پڑھنے میں لوگوں کی عدم دلچسی اور بیزاری نے اْنہیں بہت بے چین کر رکھا تھا، اس وجہ سے اْن کے قہقہے بھی روز بروز کم ہوتے جا رہے تھے، وہ اکثر محفلوں میں اب بْجھے بْجھے سے دکھائی دینے لگے تھے، ذاتی حوالے سے ایک انتہائی آسودہ زندگی گزارنے والے کو فکر صرف یہ تھی معاشرہ بداخلاقیوں کے آخری مقام پر کیوں پہنچتا جا رہا ہے؟ ہماری شاعری ہمارا ڈرامہ ہمارا ادب بدتمیزیوں اور بداخلاقیوں کا شکار کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ خصوصاً ہمارے اکثر ڈراموں میں بے شرمیاں بے حیائیاں اور رشتوں کی پامالیاں کیوں بڑھتی جا رہی ہیں؟ وہ لفظ کہاں گْم ہوتے جا رہے ہیں جو لوگوں کو زندگی کے اصل مقصد اصل مفہوم کی طرف لے جاتے تھے، وہ زمانہ کہاں گیا جب لوگ بولتے تھے اْن کے منہ سے پھول جھڑتے تھے، اْن کے لفظوں سے خوشبو آتی تھی، اْن کی کوئی زبان ہوتی تھی، اب ان سب باتوں ان سب رویوں کا قحط پڑا ہے، ان حالات میں وہ اور کتنا زندہ رہتے؟ اچھا ہوا وہ چلے گئے، اب جنت کے کسی خوبصورت مقام پر بیٹھ کر ویسی ہی وہ شاعری کریں گے جیسی یہاں کرتے تھے، پاکستان بھی اْن کے لئے جنت کا اک مقام ہی تھا، جنت کے اس مقام کو ہمارے بدبخت، بددیانت، بے ادب اور گْستاخ حکمرانوں اور بے حس و منافق عوام نے جب مکمل طور پر ایک دوزخ میں بدل دیا”شاعر محبت“ یہاں سے کْوچ کر گئے کیونکہ وہ جنتی تھے، وہ یہاں کیسے رہ سکتے تھے؟۔جیسے اب یہاں کوئی تتلی کوئی فاختہ کوئی جْگنو دکھائی نہیں دیتا، امجد اسلام امجد بھی دکھائی نہیں دیں گے، یہ سب کسی اور مقام پر جاکر اکٹھے ہو گئے ہیں، دْور بہت دْور اس مقام سے ایک آواز سْنائی دے رہی ہے۔
میں ترے سنگ کیسے چلوں سجنا
تْو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا

 

تبصرے بند ہیں.