جب کچھ سامنے دکھائی دے تو اُس کے لیے ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی یہ بات تو درست ہے آج جو پاکستانی صورتحال میں دکھائی دے رہا ہے اُس کو ڈسکس کرنے کا موقع آج پاکستان نے خود دیا ہے کہ انڈیا اپنے چینلز پہ بیٹھ کر کس طرح سے پاکستان کی صورتحال کو اس طریقے سے ادھیڑ رہا ہے یہ سب ہمارے حکمرانوں کی نااہلیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہمیں اس طرح کی باتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج انڈین اینکرز اپنے دیس کے لیے کیا کہہ رہے ہیں میں وہ لفظ دہرانا چاہوں گی، ”پاکستان کہاں کھڑا ہے اور ہندوستان آگے نکل گیا“۔ یہ بات درست ہے، ذرا سوچئے یہاں سیاسی دنگل ہے، تو انڈیا آئی ٹی میں بہت آگے نکل چُکا ہے۔ یہاں سیاسی مفادات ہیں وہاں مودی ریاستی مفادات کی جنگ لڑتا ہے۔ وہاں بھی اپوزیشن ہے، وہاں بھی مختلف تحریکیں پنپتی ہیں جس میں خالصتان تحریک عروج پکڑے ہوئے ہے مگر وہ ایسی قوم ہے کہ اس ٹاپک کو اپنے میڈیا پہ ڈسکس نہ کر کے یکسر اگنور کر دیا جس کی طرف کسی کی نگاہ ہی نہیں جاتی۔ مگر ہمارے دیس کا سیاسی دنگل عروج پکڑے ہوئے ہیں۔
ابھی کل ہی میں ایک معروف تجزیہ کار نے ایک پروگرام کیا جس کا عنوان کچھ یوں تھا کیا امریکہ انڈیا کو پاکستان پہ مسلط کر رہا ہے، کیا یہ امریکہ کی چال تو نہیں۔ میں یہاں اپنے اُن سینئرز کو کہنا چاہوں گی کہ جب دُشمنی اپنے حکمران ہی بہت اچھے سے نبھاہ رہے ہیں تو امریکہ کو ایسی محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ شاید یہ بیان سُنا نہیں ہو گا جو کہ انڈین جنرل بخشی نے اپنے میڈیا چینلز پہ بیٹھ کر دیا کیونکہ اُن دنوں عمران خان آرمی کے خلاف بیانات دے رہے تھے، اداروں کے خلاف دے رہے تھے تو جنرل بخشی نے بڑے خوبصورت انداز میں کہا کہ جو کام عمران خان اپنے ملک میں رہ کر کر رہا ہے اُس کے لیے ہمیں محنت اور اربوں کھربوں خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس ایک بیان کے بعد میں اتفاق ہی نہیں رکھتی کہ امریکہ ہم پہ انڈیا کو مسلط کر رہا ہے۔ موجودہ صورتحال کو اگر ہم دیکھیں تو ہم نے جو کچھ بھی مسلط کر رکھا ہے وہ اپنی ہی خامیوں کی وجہ سے ہے۔ شہباز شریف پچھلے دنوں آئی ایم ایف کے قرض کے لیے بہت پریشان اور بے چین دکھائی دے رہے تھے اپنے کپڑے بیچنے پہ بھی لگا دئیے تھے، کپڑے تو اتنے داغدار ہیں کہ اُن کو صاف کرنے والا کوئی سرف نہیں بنا، داغدار کپڑے لے گا کون؟
دوسری جانب جب بلاول مہنگائی پہ یا عوام کے مسائل پہ بات کرتے ہیں تو سچی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہونے کو دل چاہتا ہے کیونکہ اب افسوس تو بہت ہم نے کر لیا، بلاول کے دبئی میں ہی صرف جو اثاثے ہیں وہی پاکستان میں لے آئے، اور شہباز شریف کے جو اثاثے ہیں وہی پاکستان لے آئیں یقین جانئے ہمیں قرض نہیں لینا پڑے گا۔ انہوں نے ملک کے پلے کچھ رہنے دیا ہے اور نہ ہی اس 22کروڑ عوام کے۔ ہوش کے ناخن لیں اب، انڈین نے اپنے چینل پہ بیٹھ کر بڑا اکڑ کے یہ واقعہ بیان کیا کہ اُس کا بیٹا بھی نیو یارک میں تھا اور ایک پاکستانی بھی دونوں ایک ہی روم میں رہتے تھے ایک دن اکٹھے شاپنگ کے لیے گئے تو پاکستانی نے شاپنگ کے بعد کریڈٹ کارڈ بل کے لیے دیا تو اسے قبول نہیں کیا کیونکہ وہ پاکستان میں ایشو ہوا تھا، تو پھر اُس نے اپنے انڈین دوست کا کریڈٹ کارڈ دیا تو وہ قبول کر لیا گیا۔ اب وہ بات کرتے ہوئے زور دے کر کہہ رہا ہے کہ یہ میں نہیں کہہ رہا، یہ وہ لڑکا کہہ رہا ہے۔ اب پاکستانی کے اُس موقع پہ کیا الفاظ تھے، مجھے پاکستانی ہونے پر شرم آ رہی ہے۔ یہ میں نہیں وہ پاکستانی لڑکا میرے بیٹے کو کہہ رہا تھا کاش میں بھارت میں رہنے والا ہوتا۔ اب سوچئے سیاسی دنگل نے ہمارے ملکی حالات اس قدر کمزور کر دئیے ہیں کہ پاکستان کے مسائل حل کرنا تو دور اوورسیز پاکستانیوں کو بھی یکسر اگنور کر چُکے ہیں۔ یہ حیثیت رہ گئی ہے پاکستانیوں کی دوسرے ممالک میں۔
اب پاکستان کی اکانومی کی جو ویلیو رہ گئی ہے اب پر پاکستانی اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ گھر کا ایک فرد پاکستان سے باہر ہونا چاہیے تاکہ بہتر گزر بسر ہو سکے۔ ہم نے پاکستان پہ خود کسی کو مسلط نہیں کیا اور نہ ہی پاکستان کے عوام نے۔ عوام تو بے چارے یہ سب سمجھنے سے قاصر ہیں، اُن کو تو روٹی اور بھوک کی آگ سے نجات ملے تو وہ کچھ سوچیں۔ قصور اُن حکمرانوں کا ہے جنہوں نے حکمرانی کی مگر آج تک ملکی معیشت کو بدحالی سے نکالنے کے لیے کبھی کوئی پالیسی نہیں بنائی بلکہ یہ تو اقتدار کے بھوکے صرف آتے ہی عوام کا خون چوسنے کے لیے ہیں۔ یہ ان تمام برانڈڈ جماعتوں کا کیا دھرا ہے کہ آج 22 کروڑ عوام اُس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، ہر 2 یا 3 ماہ بعد ضمنی بجٹ پیش کر دیا جاتا ہے۔ کوئی فکر نہیں کہ کیسے غریب طبقہ اپنی ضروریات زندگی پوری کرے گا مگر اب بھی کوئی بھی نیوز چینل دیکھ لیجئے سیاسی دنگل جاری ہی ہو گا۔ موجودہ جماعت پچھلی کو قصوروار ٹھہراتی ہی دکھائی دے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی بہتری لانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے؟
یہ جماعتیں پہلے بھی اقتدار میں رہی ہیں مگر مسائل جوں کے توں ہی رہے۔ پاکستانی عوام کے لیے کل بھی مہنگائی تھی آج بھی ہے اور آنے والے وقت میں بھی رہے گی۔ ابھی میں کچھ دیر پہلے احسن اقبال کی میڈیا ٹاک سُن رہی تھی جنہوں نے کہا کہ ایک فارن انویسٹر ہمارے ملک میں آیا جس نے یہاں انڈسٹری لگانا تھی۔ احسن اقبال نے کہا کہ چند روز کے بعد میں نے سوال کیا کہ آپ نے جگہ کا بھی انتخاب کر لیا ہے اب کام کیوں نہیں کرا رہے۔ اُس نے چٹکی بجائی اور بولا! کہ اگر آپ کے ملک کا وزیر اعظم یوں فارغ ہو سکتا ہے تو میں اپنے 200 ارب ڈالر کا تو سوچوں گا کیسے محفوظ رہ سکتا ہوں۔ یہ بات آج احسن اقبال نے کی ہے میں اپنے بے شمار کالمز میں بیان کر چُکی ہوں کہ جب تک سیاسی دنگل جاری رہے گا تب تک کوئی سرمایہ کار اس ملک میں نہیں آ سکتا، معیشت میں بہتری نہیں آ سکتی۔ پاکستان جس صورتحال سے دوچار ہے ابھی تک کسی کو بھی احساس نہیں ہے، حالات اس نہج پہ ہیں کہ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چُکی ہے، روپے کی قدر پست ترین سطح پہ ہے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی مں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمارے ہاں حکومتی پالیسیوں میں مستقل مزاجی کا فقدان ہمارے معاشی مسائل کی بہت بڑی وجہ ہے۔ اگر دوسری کسی بڑی وجہ کا ذکر کرنا ہو تو قومی وسائل کا زیاں یاد کرنا ہو گا۔ جب تک اس رویے کو تبدیل نہیں کیا جا تا اور حکومتی نظام سے لے کر عام آدمی کی زندگی تک وسائل کو بہترین پیداواری صلاحیت کی حد تک استعمال نہیں کیا جاتا، ہمارے معاشی مسائل کا حل ممکن نظر نہیں آتا۔ بحران اگرچہ مشکلات لے کر آتے ہیں، ونسٹن چرچل کا ایک قول یاد آ رہا ہے ”بحران کو ضائع مت جانے دو“۔ چنانچہ آج ہم جس طرح کے حالات سے گزر رہے ہیں ہمیں یہ قول اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی موقع جو بظاہر ناقابل تصور حد تک مشکلات سے بھرپور ہے۔ ہمیں معاشی انتظامات کے نئے ڈھنگ سکھا سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم ماضی سے کچھ سیکھیں گے یا پھر وہی غلطیاں دہراتے رہیں گے یا پھر یونہی سیاسی دنگل میں ہی اپنی توانائیاں ضائع کریں گے۔ یہ فیصلہ ہماری سیاسی اشرافیہ کو کرنا ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.