عمران خان نے گزشتہ دنوں اپنی جان سے متعلق ایک بڑا دعویٰ کیا ہے۔ عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ انہیں قتل کرنے کا ایک پلان بنایا گیا ہے اس کے لیے آصف زرداری نے دہشت گرد تنظیم کو پیسے دیے ہیں، ایجنسیاں بھی اس میں ملوث ہیں۔ عمران خان نے اس حوالے سے جب ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا ان کا کہنا تھا کہ جب پلان اے کا مجھے پتہ چلا کہ مجھے قتل کرنے کی سازش تیار ہوئی ہے تو میں نے ویڈیو بنا کر باہر بھجوا دی۔ اس کی وجہ سے وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے اور پھر پلان بی میں انہوں نے توہین مذہب کا الزام لگا کر مجھ پر حملہ کرایا اور اب پلان سی بنایا گیا ہے جس میں آصف زرداری شامل ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ بند کمرے میں چار لوگ تھے جنہوں نے یہ منصوبہ بنایا اور میں نے بتا دیا اس وجہ سے وہ لوگ رک گئے مگر پلان سی میں آصف زرداری شامل ہیں اور سرفہرست ہے جس کے پاس کرپشن کا پیسہ ہے اور یہی پیسہ انہوں نے دہشت گرد تنظیموں کو دیا ہے کہ عمران خان کو قتل کر دو۔ عمران خان نے قوم کو واضح کیا کہ اگر مجھ پر کوئی بھی حملہ ہوا تو آپ سب ان لوگوں کو پکڑنا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ عمران خان نے یہ الزام لگا تو دیا مگر اس کا کوئی واضح ثبوت دینے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ وہی گیم لگتی ہے کہ امریکی سازش ہو رہی ہے حکومت گرانے میں مگر جب اس کی تحقیقات ہوئی تو صاف پتہ چل گیا قوم کو کہ معاملہ کیونکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا تھا جو سابق صدر آصف علی زرداری پر قتل کرانے کا عمران خان نے بے بنیاد الزام لگایا، اس حوالے سے ان کی پارٹی کے کچھ لوگوں کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران نے میرے پروگرام میں اس حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے دلوں میں بہت غم و غصہ ہے اور ہر پیپلزپارٹی کے ورکر میں کیوں کہ عمران خان صاحب اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں، ان کی گھٹی میں جھوٹ شامل ہے، جب بھی ان
کی پوری سیاست کو دیکھیں گے جو جھوٹ سے شروع ہوتی ہے چاہے وہ پی ایم ہاو¿س کی یونیورسٹی دیکھ لیں، چاہے گورنر ہاؤس کی لائبریری دیکھ لیں اور چاہے 200 ارب لا کر منہ پر مارنے کی بات کر لیں، کبھی امریکی سازش تو کبھی کچھ۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بیانات اور الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا ان کی تمام تر باتیں جھوٹ پر مبنی ہیں اور بے بنیاد ہیں یہ ایسی باتیں اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اب ان کی پارٹی الیکشن نہیں جیت سکتی۔ 2018 میں بھی انہوں نے پیپلز پارٹی کے حق پر ڈاکہ مارا تھا، لیکن ہم نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کیا اور جمہوریت کے استحکام کے لیے پارلیمنٹ کا حصہ بنے اور دوسری جماعتوں کو بھی قائل کیا کہ پارلیمنٹ میں آ کر بیٹھیں۔ سابق صدر مملکت آصف زرداری کے بارے میں ایسی بات کرنا نادانی ہے۔ عمران خان کی بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے، وہ صرف عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، اور ووٹ اور ہمدردی لینے کے لیے ایسی باتیں کر رہے ہیں اور اگر ہم یہ معاملہ بھی دیکھیں تو عمران خان نے امریکی سازش اور ایسے الزامات لگا کر ہمیشہ ایک شور برپا کیا ہے اور جب بھی ان کی تحقیقات ہوتی ہیں تو کھودا پہاڑ جاتا ہے مگر نکلتا چوہا ہے۔ ان معاملات نے یہ الزامات کی سیاست ملک کا وہ حال کر کے رکھ دیا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان بہت سے مشکلات سے دوچار ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے ایک خبر آئی ہے کہ آئی ایم ایف مشن نے 31 جنوری کو پاکستان تشریف لانی ہے اور فروری تک وہ پاکستان میں قیام کرے گا۔ اب اس معاملہ کو جلد سے جلد حل ہو جانا چاہیے کیونکہ حکومت نے فیصلہ میں تاخیر کر کے معاشی بحران بہت بڑھا دیا ہے۔ ملک کے لیے ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی بنیادی شرط یہ تھی کہ روپے کو مارکیٹ پر چھوڑا جائے تو ہم نے چھوڑ دیا اور اب نظر بھی آ گیا، اس وقت کیا حالات ہیں۔ اب حکومت کو دیکھیں تو آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے کو تیار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کو میں بتاتی چلوں کہ آئندہ آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہو گا، ڈیزل پر پٹرولیم لیوی میں مزید ساڑھے سترہ روپے اضافہ کرنا ہو گا، ڈالر کی اڑان دیکھی تو قابو سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کرنسی کو مارکیٹ پر چھوڑنا بھی حکومت کی مجبوری بن گئی تھی کیونکہ حکومتی ذرائع بتا رہے تھے کہ آئی ایم ایف کا رویہ بہت سخت ہے وہ کسی بھی صورت کچھ بھی ماننے کو تیار نہیں ہے اور جب ان کی یہ شرائط حکومت نے نہ مانیں تو حالات بدلتے ہوئے دکھائی دیے جو کہ ایک بہت ہی افسوس ناک صورت حال ہے۔ سوال یہ آتا ہے کہ میرے ملک کے معزز حکمرانوں نے اپنے اقتدار کی جنگ کو بند نہیں کیا جس کی وجہ سے پاکستان کا پانچ سال میں یہ حال ہو گیا اور ملک کہاں سے کہاں چلا گیا اور اب جو سب سے بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے وہ ہے مہنگائی۔ عوام کو ڈر ہے کہ مہنگائی ہونے جا رہی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ دو وقت کی روٹی کھانے سے بھی قاصر ہو جائیں گے اور اگر دیکھیں تو سب سے زیادہ خطرہ اس وقت ن لیگ کو ہے اس کی حالت بہت خراب دکھائی دے رہی ہے اور عوام کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمارا ساتھ نہ دیا گیا تو ہم الیکشن میں کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اور ہمیں وہ حکمران چاہیے جو ہمارا سوچے، جو کہ ہمارا خیال کرے یہ نہیں کہ اقتدار میں آئیں اپنا رونا سنائیں اور چور ڈاکو کے نعرے لگائیں معاملہ مزید خراب کر کے چلے جائیں۔ خیر اس وقت پاکستان جس مشکل گھڑی سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں ہے۔ وزیراعظم خود کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاکستان تشریف لانے سے معاملہ بہتر ہو گا مگر جو عوام کا حال ہونے والا ہے وہ سب کو پتہ ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.