اصل موضوع پر بات کرنے سے پہلے نہ چاہتے ہوئے بھی سیاست پر بات کرنا ضروری ہے ۔ اس لئے کہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ جس جماعت کے دور میں اپنے ہر سیاسی مخالف کو انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہو وہ اپنی جماعت کے ایک رہنما کی گرفتاری پر سوشل میڈیا پر جو طوفان بپا کر رہے ہیں ہمیں یہ سب دیکھ کر حیرت ہو رہی ہے ۔ جن کے دور میں آصف زرداری ، نواز شریف ، شہباز شریف ، فریال تالپور ، مریم نواز، کیپٹن صفدر ، رانا ثناءاللہ ، شرجیل میمن ، سعد رفیق، سلمان رفیق ، شاہد خاقان عباسی ، حمزہ شہباز ، احسن اقبال ، مفتاح اسماعیل، میاں جاوید لطیف، محسن بیگ الغرض کون سا ایسا قابل ذکر سیاسی و صحافتی شعبہ میںمخالف تھا کہ جسے تحریک انصاف کے دور میںجیلوں میں نہیں رکھا ۔ فواد چوہدری کو دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی لگائی گئی ہم بھی سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے لیکن تحریک انصاف والوں کو کیا یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اس پر احتجاج کریں اس لئے کہ ان کے دور میں کسے یاد نہیں ہے کہ عرفان صدیقی ایسے بزرگ صحافی کہ جن سے ہمیں شدید نظریاتی اختلاف ہے لیکن جب انھیں دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر انتہائی ذلت آمیز انداز میں عدالت میں پیش کیا گیا تو ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ یہ غلط ہے لیکن آج فوادچوہدری کی ہتھکڑیوں کی مذمت کرنے والوں نے اس وقت ان ہتھکڑیوں کا دفاع کیا تھا اور خود فواد چوہدری نے بھی وزیر اطلاعات کی حیثیت سے مذمت تک نہیں کی تھی ۔اس کے بعد کیا ہم اس بدقسمت پروفیسر کی ہتھکڑی لگی نعش کو بھول سکتے ہیں کہ جنھیں جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ شریف آدمی اپنی تذلیل برداشت نہ کرتے ہوئے ابدی نیند سو گیا ۔ جتنی مذمت اور واویلا آج فواد چوہدری کی گرفتاری پر کیا جا رہا ہے اس کا دس فیصد بھی اگر اپنے دور حکومت میں ہونے والی گرفتاریوں پر کیا جاتا تو آج انھیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے ۔
سیاست میں اتنی سرعت کے ساتھ بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں کہ کوشش کے باوجود بھی معیشت پر لکھنے کا موقع نہیں مل رہالیکن پھر بھی کوشش کرتے ہیں جس قدر ممکن ہو سکے معیشت پر لکھ لیا جائے ۔ ہم ایک عرصہ سے اپنی تحریروں میں
معیشت اور سیاست پر جب بات کرتے ہیں تو ہمیشہ ایک ہی موقف کا اعادہ کیا کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا اس وقت تک معاشی استحکام کا خواب کبھی پورا نہیں ہو پائے گا ۔ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے بلکہ جسے معیشت کی تھوڑی سی بھی سمجھ ہے اسے اس بات کا بخوبی علم ہے اور معیشت اور سیاست کے استحکام میں کس قدر نزدیک کا رشتہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں چند دن پہلے تک ملک میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں کے حوالے سے انتہائی بے
یقینی کی کیفیت تھی اور پتا ہی نہیں چل رہا تھا اسمبلیاں رہیں گی یا نہیں اور پھر وفاق میں جس طرح عمران خان نے عدم اعتماد کا شوشا چھوڑا تھا تو بے یقینی میں یک دم بے انتہا اضافہ ہو گیا لیکن اس کے بعد عمران خان کے ماسٹر اسٹروک کے جواب میں جب وفاقی حکومت نے ماسٹر سٹروک کھیلنا شروع کئے اور پنجاب اور خیبر پختونخوا دونوں صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہو گئیں اور تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں کی منظوری کے بعد سیاسی صورت حال میں بڑا معمولی سا ٹھہراﺅ آیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سٹاک ایکسچینج جو گذشتہ کچھ عرصہ سے نیچے ہی نیچے جا رہی تھی یک دم ایک ہی دن میں 9سو پوائنٹ کا اضافہ ہو گیا اور یہ کوئی معمولی اضافہ نہیں تھا اور دو دن پہلے 38ہزار پر آنے والی سٹاک مارکیٹ فقط 48گھنٹوں میں چالیس ہزار کا ہدف پار کر گئی ۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات کے صدر نے اپنے دورہ میں انتہائی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا اور پاکستانی حکومت کو کہا ہے کہ وہ تیار ہو جائیں ہم پاکستان میں ایک بڑی سرمایہ کاری کرنے جا رہے ہیں ۔ انتہائی مشکل معاشی صورت حال میں تسلی کا ایک لفظ بھی غنیمت ہوتا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات نے کسی دوسرے ملک کی طرح ہمیں اصلاحات کا نہیں کہا بلکہ انھوں نے ہمیں گذشتہ دنوں ایک ارب ڈالر دے بھی دیئے ہیں اور اب ان کا پاکستان میں ایک بڑی سرمایہ کاری کرنے کا کہنا در حقیقت پاکستان کے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ گذشتہ دنوں روسی وفد سے بھی اچھی بات ہوئی اور امید ہے کہ مارچ کے آخر میں پاکستان کو سستا تیل ملنا شروع ہو جائے گا ۔ قوی امید ہے کہ جیسے جیسے نگران سیٹ اپ نے کام کرنا شروع کیا اور اپنے قدم جمانا شروع کئے تو سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی استحکام بھی آنا شروع ہو جائے گا ۔
یہ تو قارئین تصویر کا ایک رخ تھا لیکن دوسری جانب جس طرح ڈالر نے ایک دم تیس روپے کے ساتھ اونچی اڑان بھری ہے اس سے ڈالر کا ریٹ 230سے 260پر پہنچ گیا جس سے مہنگائی کا ایک طوفان ہے جس سے غریب آدمی جس کے لئے پہلے ہی دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو چکا ہے وہ مزید پس کر رہ جائے گا ۔ ابھی صرف ڈالر کا ریٹ بڑھا ہے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بھی بڑھانا پڑیں گی ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی تو بڑھ رہی ہے لیکن ذرائع آمدن ایک عرصہ سے بلکہ کئی عشروں سے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک ہی جگہ جامد ہو کر رہ گئے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ جب گھر کے اخراجات کے بعد کچھ بچت بھی ہو جاتی تھی اب تو گھر چلانا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت آئی ایم کی شرائط پر عملدرآمد ضرور کرے لیکن خدارا غریب کے جینے کے لئے کچھ آکسیجن کا بندوبست بھی ضرو ر کرے اور یقین کریں کہ حکومت معاشی میدان میں غریب کے لئے حالات کو بہت زیادہ آسان نہ سہی بس عزت کے ساتھ جینے کے قابل بنا دے۔ حکومت جتنی تیزی سے غریب کے لئے دوا کرے گی غریب کی دعا اس سے کہیں تیزی کے ساتھ حکومت کو لگے گی ۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.