آئندہ انتخابات اور بلاول بھٹو

28

میرے عزیز دوست جناب خواجہ عمادالدین جنت مکین مجھے ہمیشہ ہی یاد رہتے ہیں۔ سیاسی و سماجی اور مذہبی حوالے سے انتہائی قابل ذکر شخصیت تھے۔ عمران نیازی کا وفاق میں سورج نصف النہار پہ تھا۔ نیازی صاحب 2028 تک کی منصوبہ بندی کر چکے تھے جبکہ عوام کا کوئی پُرسان حال نہ تھا۔ عمران خان کی سیاست نے ان کو ویلنٹائن خان اور سیاسی گورو رجنیش بنا دیا، لوگ حیران ہیں کہ نیازی صاحب بھول گئے ان کو کون لے کر آیا تھا جبکہ یہ خود بھی جانتے ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے۔ سڑک کے اشارے پر رکتے وقت گاڑی کی سکرین صاف کرنے والا بھی جانتا ہے کہ عمران نیازی کو جرنیلوں کی گود سے گود کے سفر نے اقتدار پر بٹھایا ان کی کہہ مکرنیوں کو دیکھ سن پڑھ کر میں نے کئی کالموں میں لکھا تھا کہ ایک وقت آئے گا یہ مکر جائیں گے کہ انہوں نے کبھی حکومت بھی کی تھی۔ بہرحال جھوٹ بولنا اور اس کے جواب میں سچ آنا اور سچ اور جھوٹ کی تکرار میں موصوف موضوع بن جاتے ہیں۔ بس اس جھوٹ کی بنیاد پر وہ خبروں میں رہتے ہیں ایک دن خواجہ صاحب کا فون آیا وہ ہفتے میں دو تین مرتبہ مجھے فون کیا کرتے تھے اور سیاسی سماجی حوالوں پر سیر حاصل گفتگو فرماتے۔ ایک دن کہنے لگے کہ میں سوچ رہا ہوں عمران نیازی کا بطور حکمران کس سے موازنہ کروں مجھے اس سے بدتر اور نا اہل حکمران کوئی نہیں ملا۔ ضیا کے ایک ایک ظلم پر مبنی داستان ہے مگر عمران نیازی کا موازنہ انہوں نے گورنر جنرل غلام محمد سے کیا کہ ہو سکتا ہے اس کے ساتھ اس کا موازنہ کر سکیں۔ اب نئی نسل کو تو علم نہیں گورنر جنرل غلام محمد کون تھا؟ وطن عزیز کی جڑوں میں بیوروکریسی کو بٹھانے والا کردار تھا۔ اس کے دور میں کئی انہونیاں ہوئیں، سول مارشل لا کا نفاذ کر کے 10ہزار شہریوں کو ختم نبوت کے حق میں جلوس نکالنے پر قتل کر دیا گیا اور منافقت کی حد یہ ہے کہ وصیت فرما دی کہ مرنے کے بعد مدینہ میں دفن کیا جائے۔ امانت کر کے کراچی دفنایا، پورے ملک میں مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ نہ ملی جب امانت کی گئی میت کو نکالنا چاہا تو ایک سانپ میت کے ارد گرد تھا، فائرنگ اور زہریلا سپرے بھی سانپ کو الگ نہ کر سکا لہٰذا اب وہیں پڑا ہے اور کوئی فاتحہ پڑھنے والا بھی نہیں۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ وطن عزیز واقعتاً نازک
ترین صورت حال سے دوچار ہے اور افسوس ناک رویہ یہ ہے کہ عمران نیازی اقتدار کی خاطر وہ کچھ کر رہے ہیں جو نریندر مودی بھی پاکستان کے خلاف نہ کرے۔ واحد سیاست دان یا اس کی جماعت چاہتی ہے کہ وطن عزیز ڈیفالٹ کر جائے۔ پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ کے لیے خودکش بن چکے ہیں۔ میں نے سیاسی اعتبار سے اقتدار کی خاطر اس طرح ملک دشمنی اور عوام دشمنی کے درپے کسی کو نہیں دیکھا جس طرح آج عمران نیازی اور حواری ہیں۔ آئندہ انتخابات میں لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ عمران کی مقبولیت ہے دراصل صرف عمران نیازی سیاست کر رہا ہے۔ سیاسی شعور، بلوغت، حب الوطنی اور اہلیت میں عمران نیازی بلاول بھٹو کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ آئندہ انتخابات میں جب پی ٹی آئی جیسے بنی تھی ویسے ہی تحلیل ہو جائے گی۔ اس کی چھتری پر زبردستی بٹھائے جانے والے اقتدار کے پنچھی آئندہ اقتدار کے لیے اڑان بھریں گے تو پیچھے عمران نیازی کے ساتھ شاید عائلہ ملک اور پنکی پیرنی بھی نہ رہیں۔ جب سیاست کھلے گی جب انتخابات آئیں گے تو میاں نوازشریف، مریم نواز، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمن، ایم کیو ایم، تحریک لبیک اور موثر بڑی تعداد آزاد ممبران خبروں میں ہوں گے۔ عمران نیازی اپنی کہہ مکرنیوں کے ساتھ شاید فلمی صفحے یا فلمی خبروں کے ساتھ بھی جگہ نہ پا سکے۔ آصف علی زرداری نے اس دور میں اپنے امیج کو بہتر کیا اور نئی نسل کو ان کا نیا تعارف سامنے آیا۔ خیال تھا کہ نواب زادہ نصراللہ کا سیاسی کردار مولانا فضل الرحمن کے حصے میں آئے مگر وہ کردار اب آصف علی زرداری کے حصے میں آیا۔ سیاسی خبریں اور حالات تو 40 سال سے ایسے ہی چل رہے ہیں مگر اب کی بار وطن عزیز کی امریکہ کو اتنی ضرورت نہیں رہی جس وجہ سے مالی مشکلات ہیں۔ اب مسئلہ یہ نہیں کہ نوازشریف، بلاول بھٹو، آصف زرداری، سراج الحق، مولانا فضل الرحمن، مریم نواز یا عمران نیازی یا کوئی اور سیاست دان یا اسٹیبلشمنٹ اس ملک کے مسائل حل کرے گی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ معاشی صورت حال، مہنگائی، قرضوں کی فوری ادائیگی ایک بھوت کی طرح، جن کی طرح، بھونچال کی طرح، ڈاکووں کے گروہ کی طرح مسلح ہو کر بے رحم ہو کر درندگی اور برہنگی کے ساتھ گھر میں گھس آئی ہے۔ اس سے کیسے نمٹنا ہے؟ مگر افسوس کہ عمران نیازی اور اس کے حواری ریاست کی مکمل ناکامی کے خوابوں اور ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے لیے کوشاں بھی ہیں اور دعا گو بھی۔ آج نیازی کہتا ہے میں خود آیا ہوں۔ میرے پاس ایک نہیں 50 سے زائد مثالیں ہیں جہاں لانے والوں نے عمران کے لیے دن رات ایک کیا۔ ہر تحصیل، ہر ضلع میں اپنے مددگار دیئے جو لوگوں کے گھروں تک بھی گئے۔ بہرحال سب کو علم ہے۔ ایک واقعہ ہے کہ میاں نوازشریف کے آخری مہینے تھے عمران تب اشتہاری ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں ان کے خلاف پاناما کیس میں پٹیشنر تھا۔ میاں صاحب اپنے خاندان کے ساتھ جے آئی ٹی میں وزیراعظم ہوتے ہوئے پیشیاں بھگت رہے تھے۔ گلبرگ لاہور میں چاچا غلام حسین صحافی ایک مقامی ریسٹورنٹ میں موجود تھے۔ اسلام آباد سے ہمارے ایک کالم نگار دوست اور چند مقامی صحافی بیٹھے تھے۔ میرا بھی تعارف کرایا گیا جب ایک دوست نے کہا کہ چودھری صاحب کوئی بات سنائیں تو چودھری نے میری طرف دیکھا۔ دوست نے کہا آصف عنایت بٹ کالم نگار ہیں مگر آپ بات کر سکتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ کہیں چودھری، نوازشریف سے کوئی تعلق نہ سمجھ بیٹھے۔ بہرحال چودھری غلام حسین بولے کہ فلاں کی شادی تھی جنرل باجوہ بریگیڈیئر ہونے کے وقت سے میرے واقف ہیں میرے پاس ہی چلے آئے۔ میں نے کہا، جنرل صاحب میاں نوازشریف سے جان کب چھڑا رہے ہیں؟ جنرل صاحب بولے، جلدی مگر قانونی طریقہ سے، قانونی طریقہ سے نہ چھوٹی تو ویسے بھی چھڑا دیں گے۔ لہٰذا عمران نیازی وہ بات کرو جو آئینہ دیکھنے کے قابل رہ جاو¿۔ بے شک موجودہ ملکی معاشی صورت حال کے ذمہ دار عمران نیازی اور میڈیا بھی ہے مگر ان شا ¿ اللہ وطن عزیز عمران نیازی کی خواہشات کے برعکس بحرانی کیفیت سے نکل آئے گا۔ اس کے بعد انتخابات مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی نہیں پیپلز پارٹی و اتحادی، مسلم لیگ ن و اتحادی اور پی ٹی آئی و اتحادی اور ان اتحادوں میں مذہبی ٹچ والی جماعتیں بھی ہوں گی۔ آپ ذرا اندازہ کریں جس طرح اینکرز اور تجزیہ کاروں نے 2011 کے بعد عمران کے قصیدے پڑھے اس کا اڑھائی فیصد بھی بلاول بھٹو کی حقیقی حیثیت بتا دیں زرداری صاحب کی کردار کشی نہ کریں تو عمران کہیں نظر نہ آئے۔ آنے والے وقت میں بلاول بھٹو اور مریم نواز وطن عزیز کی سب سے بڑی سیاسی قیادتیں ہوں گی۔

تبصرے بند ہیں.