الیکشن کے سال میں بھی عوام مایوس

27

2022 اس ملک کے لیے ایک ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔ایک ایسا خواب جسے دیکھتے ہوئے دل ڈوب ڈوب گیا۔ 2022 ملکی سیاست، معیشت، بزنس اور عوام کیلئے ایک غیر معمولی سنگین سال ثابت ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے ذاتی مفادات کی خاطر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا جس نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر پاکستان کے اعتماد کو بری طرح متاثر کیا جس کا براہ راست اثر ملکی معیشت پر پڑا۔ گزشتہ کئی سال کی غلط معاشی پالیسیوں کا ملبہ PDM کومنتقل ہو گیا، IMF پروگرام کی بحالی کیلئے نئی حکومت کو بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑا جس سے عوام کو ریکارڈ30 فیصد افراط زر یعنی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا، بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 4سال میں نچلی ترین سطح 4.8 ارب ڈالر پر پہنچ گئے جس میں ایک ارب ڈالرکا قرضہ 10جنوری کو ادا کرنا ہے، ڈالر کی طلب کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر 257روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، معاشی ماہرین کے مطابق ڈالر مصنوعی طور پر انٹر بینک میں 227روپے پر رکھنا آنے والے مہینوں میں ممکن نہیں ہوگا، خطے میں پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں سب سے خراب کارکردگی رہی ہے اور 2022 میں پاکستانی کرنسی کی ویلیو 50 روپے کم ہوئی۔ جنوری 2022 میں پاکستانی روپے کی قدر 176.75روپے تھی جبکہ سال کے آخر میں اسکی قدرکم ہو کر 227روپے پر آگئی۔ جنوری سے دسمبر 2022 میں زرمبادلہ کے ذخائر میں 67فیصد کمی ہوئی جو 16.6ارب ڈالر سے کم ہو کر 5.5ارب ڈالر پر آگئے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان بزنس کونسل نے اپنا ہنگامی معاشی پروگرام جاری کردیا ہے جس کے مطابق حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ IMF سے جلد از جلد قرض پروگرام کو بحال کرے، نان کمرشل غیر ملکی قرضوں کو ری اسٹرکچر کیا جائے، ساتویں NFC ایوارڈ پرازسرنو مذاکرات کئے جائیں، ایکسپورٹ کیلئے منگوائے گئے خام مال کو کلیئر کرنے کی فوری اجازت دی جائے اور ڈالر کی افغانستان کو غیر قانونی سمگلنگ روکی جائے۔ IMFکی سب سے بڑی تشویش حکومت کے پاور سیکٹر کے 4000ارب روپے کے گردشی قرضے ہیں جن میں پاور سیکٹر کے 2500 ارب روپے اور گیس اور LNG سیکٹر کے 1500ارب روپے شامل ہیں جسے IMF نے جون 2023 تک کم کرکے 1100ارب روپے تک لانے کا ہدف دیا ہے۔
الغرض ہم جو سمجھتے تھے کہ اتنے وسائل، افرادی قوت، سونا اگلتی زمین،معدنیات سے بھرے پہاڑ،بل کھاتے دریا، ذرخیز زمین،لہلہاتے کھیت اور خزانوں سے بھرے وسیع سمندر کا مالک ملک ترقی پذیر کے حلقے سے نکل کر ترقی یافتہ کا رتبہ کیوں حاصل نہیں کر پا رہا۔ہمیں کیا خبر تھی کہ یوں جان کے لالے پڑ جائیں گے کہ پوری دنیا میں ہمارے دیوالیہ ہونے اور نہ ہونے کے تذکرے گونجنے لگیں گے۔ہماری ہر صبح کی جبین عالمی بینک کے آگے قرضوں کے ترلے کی ٹرے لئے سرنگوں کھڑی ہوگی۔جبکہ ہماری ترقی پذیر معیشت مصنوعی تنفس کی نالیوں پر زندہ ہوگی۔
خیر 2023ءالیکشن کا سال ہے ، بلکہ یہ صرف الیکشن کا سال ہی نہیں 1973 کے متفقہ آئین کی گولڈن جوبلی کا سال بھی ہے۔ یاد رکھیں اس آئین کو کئی پیوند لگے، کئی ٹیکے لگے، اعلیٰ ترین عدلیہ نے جس کو اس کا تحفظ کرنا تھا، ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت اسے توڑنے والوں کو قانونی کہا ،جائز قرار دیا اور بنانے والے کو ’جوڈیشل مرڈر‘ کے ذریعہ پھانسی دے دی۔اس آئین نے ایک سمت دی، نظام دیا، آگے بڑھنے کا راستہ بتایا، اگر اس تاریخی دستاویز کو کسی آمر نے ’کاغذ‘ کا ٹکڑا کہا تو وہ آمرامر نہیں ہوا، بنانے والوں کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ان تمام اکابر کو خراج تحسین پیش کرنے کا وقت ہے جنہوں نے نظریات کو بالاتر رکھ کرایک آئین پر اتفاق کیا۔ اس آئین پر عمل نہیں ہوا اس لئے سیاست کو آمروں نے ’سیاسی سٹاک مارکیٹ‘ میں تبدیل کردیا۔ اب الیکشن سے پہلے وزیراعظم کیلئے ’ٹینڈر‘ کھلتا ہے اور پھر قبولیت ہوتی ہے۔ جمہوریت مقبولیت کا نام ہے قبولیت کا نہیں۔
بہرحال نیا سال آچکا ہے، الیکشن کے اس سال میں سنا جا رہا ہے کہ یہ سال مزید سیاسی عدم استحکام لائے گااور عوام مزید مہنگائی کی چکی میں پسیں گے۔ حالانکہ دنیا میں ہر جگہ الیکشن کا سال عوام کو ریلیف دینے کا سال ہوتا ہے،لیکن پاکستان میں ریلیف کے حوالے سے ایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو کھڈے لائن لگانے کی تیاری کی جارہی ہیں۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہمیں یہ روایت توڑنا ہوگی، ورنہ یہ ملک اگلے سو سال تک بھی ترقی نہیں کر سکے گا۔ ایسا کرنے سے ملک میں کبھی نئی لیڈر شپ پیدا نہیں ہوگی، ہمیں ا±نہی غلام حکمرانوں پر اکتفا کرنا پڑے گا جو ہم پرہر بار مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن ا±مید کی جاسکتی ہے کہ بطور قوم ہم اس وقت جن معاشی، سیاسی اور لاقانونیت کے مسائل سے دوچار ہیں وہ مسائل وقتی ہیں۔ ہم پہلے بھی ان سے نکلنے میں کامیاب رہے ہیں اور بطورِ قوم دوبارہ بھی ان سے نکلنے کی سکت رکھتے ہیں۔ یہاں رابندر ناتھ ٹیگور سے منسوب ایک فقرہ یادآجاتا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس بات کی علامت ہے کہ خدا انسان سے مایوس نہیں ہوا۔ اسی طرح گزشتہ برس کا پلٹتا صفحہ اور نئے سال کی آمد بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ خدا ہمیں بہتر ہونے کا مزید وقت دے رہا ہے،اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
بہرحال اس سال ہماری تین بڑی ترجیحات ہونی چاہئیں: صاف اور شفاف انتخابات ‘ معیشت کو درست راہ پر گامزن کرنا اور دہشتگردی کے عفریت کو کچلنا۔ یہ مشکل اوامر ہیں لیکن ناممکن نہیں۔ اگر سارے فریق ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے تو مسائل کا حل ناممکن نہیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اگلے برس بھی ہم یہی رونا رو رہے ہوں گے۔ فرق صرف یہی ہو گا کہ تب تک ہم مزید مواقع ضائع کرچکے ہوں گے اور بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوگا۔ 2023 کئی لحاظ سے اہم سال ہے، اس کو ’استحکام جمہوریت‘ کا سال قرار دینا چاہئے، ایک دوسرے کی سیاسی حقیقت تسلیم کرکے پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں بیٹھیں اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کریں۔ جمہوریت میں ’قبولیت‘ کوئی چیز نہیں ہوتی ’مقبولیت‘ کے آگے سر تسلیم خم ہونا چاہئے، سرفراز زاہد نے کیا خوب کہا ہے:
سال گزر جاتا ہے سارا
اور کیلنڈر رہ جاتا ہے
اہلِ پاکستان کو عزم کرنا چاہیے کہ اِس سال اپنے معاملات کو درست کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ یہ سب کچھ محض سوچنے یا عزم کرنے سے نہیں ہوسکتا۔ عمل کی دنیا میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے بھرپور تگ و دَو کرنا لازم ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں اپنی بقاءیقینی بنانا ہے۔ محض خرابیوں اور عدم استحکام سے دوچار ہونے کا زمانہ گیا۔ اب تو بقا کا سوال ا±ٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ سال ہمارے ارادوں کو مزید مضبوط کرے اور نیتوں کا اخلاص بھی بڑھائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ذاتی مفادات کی سطح سے بلند ہوکر ملک و قوم کے لیے سوچنے کی توفیق نصیب ہو۔

تبصرے بند ہیں.