حالیہ دہشت گردی اور اس کا حل

112

حالیہ چند ہفتوں کے دوران جس طرح پے در پے دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ، اس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ جس نے سنجیدہ حلقوں اور ہر محب وطن کو سوچنے پر مجبور کر دہا ہے کہ کہیں ان دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں نئی عسکری قیادت پر ناکامی کا دھبہ لگا کر مملکت اسلامیہ کے خلاف کوئی بھیانک کھیل تو نہیں کھیلا جارہا۔ جیسے سیاسی و معاشی ابتری کا کھیل ہنوز جاری ہے، جس کو شرپسندوں کی جانب سے مقتدرہ اداروں پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ جس کا آغاز حافظ قرآن نئے COAS کی تعیناتی سے قبل ہی ان کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی پراپیگنڈہ مہم سے شروع کر دیا گیا تھا۔ میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق وہ ایک پیشہ وار سولجر ہونے کے ساتھ ساتھ ایماندار بھی ہیں جو دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا ۔ ان دہشت گردانہ کارائیوں کے ذریعے دشمنان پاکستان پاک فورسز کو آخر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ جس کو ایسے ہی نظر انداز کر دیا جائے ۔
موجودہ گھمبیر حالات کے تناظر میں تمام سیکورٹی قیادتوں کو ذمہ دار حلقوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ایک مربوط لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا، سخت پالیسی مرتب کرنا ہو گی۔ کیونکہ چند روز قبل دارالحکومت میں ہونے والے خود کش دھماکے کے حوالے سے وزیر داخلہ واضح بیان دے چکے ہیں کہ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والوں میں ایک سے زائد پڑوسی ممالک شامل ہیں ۔ کسی کو وادی پنجشیر کھو جانے کا غم ہلکان کیئے جارہا ہے تو کسی کو کشمیر ، ریاست
جوناگڑھ و ریاست حیدر دکن سرک جانے کے خوف نے راتوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ نئی عسکری قیادت کو بنیاد بنا کر ہر کوئی بدلہ لینے پر تلا بیٹھا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کسی ملک میں دہشت گرد اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک متعلقہ ملک سے سہولت کارمیسر نہ ہوں ۔ دہشت گرد سے بڑا مجرم سہولت کار ہوتا ہے کیونکہ ان کی مدد کے بغیر دہشت گرد کبھی بھی پنپ نہیں سکتے ۔ تمام اسمبلیاں وسینٹ دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری کا کردار ادا کرنے والوں کے لیے فی الفور ایسی قانون سازی کرےں کہ گرفتار ہونے کے ایک ہفتہ کے اندر اندر ان کو پھانسی پر لٹکایا جا سکے۔ تو دوسری جانب سیکورٹی ادارے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تمام دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروںکو میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے لائیں ۔ آخر کب تک مصلحت کوشی کا شکار ہو کر ماو¿ں کے جگر گوشوں کو دشمنوں کے آگے ترانوالہ بنا کر پیش کرتے رہو گے ، آخر کب تک ؟
ہمیں ان زمینی حقائق کا ادراک کرنا ہو گا کہ دشمن سب سے پہلے میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کی فکری و نظریاتی سوچوں پر قبضہ کر کے اپنے مذموم مقاصد کی حصول کے لیے ملکی سلامتی کے خلاف استعمال کرتا ہے ۔ ذہنوں کو کس حد تک متشر کیا جاتا ہے بدقسمتی سے جب متعلقہ عناصر کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو وہ اصلی دشمن کو سمجھنے کی بجائے بھڑک اٹھتے ہیں ۔بدترین دشمن ہمیں ہر جانب سے فکری و نظریاتی طور پر مفلوج اور منتشر کر دینا چاہتا ہے ۔ ان پر آشوب حالات میں ہر قسم کے ذاتی، سیاسی مفادات و فروعی اختلافات بھلا کر مملکت اسلامیہ پاکستان کی سلامتی کے لیے پوری قوت کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی طور پر سوشل ، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر متحرک ہوں ۔ یہ کبھی بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ ہم آخری معرکوں کے لوگ ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو ان آخری معرکوں میں اسلام دشمن طاقتوںکے خلاف ہراول دستے کا کردار ادا کرناہو گا ۔
سب سے زیادہ مثبت کردار علماءاکرام کو ادا کرنا ہے ۔دشمنان پاکستان کی سازشوں ، گھناونے منصوبوں اور دہشت گردی کے واقعات کو قرآن وسنت کے تناظر میں اپنے دروس و خطبات کا حصہ بنائیں ، نوجوان نسل کو دین اسلام کے ساتھ جوڑیں۔ دشمنوں کی جانب سے شروع کی گئی اس بدترین Hybrid War کے مہلک اثرات سے اگر اپنی نوجوان نسل کو بچانے میں کامیاب ہو ں گے یقین کریں کوئی بھی بڑا نقصان اٹھائے اور جنگ کئے بغیر دشمنوں کو شکست فاش دے سکتے ہیں ۔ اسی طرح مقتدرہ اداوں کے ذمہ داران مملکت اسلامیہ میں پچاس سالوں سے جاری دہشت گردی کے حوالے سے کہ کون کیا کر رہا ہے ، کس کی کیا قربانی ہے ، کیا کامیابیاں حاصل کی ، کون منافقانہ کردار ادا کر رہا ہے؟ سے متعلق ایک دو گھنٹے پر مشتمل presentationکا اہتمام کریں ۔ جس سے پورے ملک کے تمام تعلمی اداروںو دینی درسگاہوں کے اساتذہ اکرام سمیت طلبہ وطالبات کو بریف کیا جائے۔ یہ حقیقت کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مملکت اسلامیہ کے خلاف جنگ صرف مملکت کے خلاف نہیں بلکہ یہ جنگ پورے عالم اسلام کے خلاف جنگ ہے ۔

 

تبصرے بند ہیں.