تاریخی تباہی کے تادیر اثرات

86

قبل مسیح میں ایک بدعنوان جج کے زندہ ہوتے ہوئے اس کی کھال اتاری جا رہی تھی اور اس جج کی کھال سزا کے طور پر اتاری جا رہی تھی۔ اس جج کا نام سیسمنس تھا اور یہ جج فارس میں بادشاہ کمبیسیس کے وقت ایک بدعنوان شاہی جج تھا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس نے عدالت میں رشوت لے کر غیر منصفانہ فیصلہ دیا اس کے نتیجے میں بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے اس کی بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا جائے اور اس کی زندہ کھال اتارنے کا حکم دیا۔ فیصلہ سنانے سے پہلے بادشاہ نے سیسمنیس سے پوچھا کہ وہ کسے اپنا جانشین نامزد کرنا چاہتا ہے سیسمنس نے لالچ میں اپنے بیٹے Otanes کو منتخب کی۔ بادشاہ نے رضامندی ظاہر کی اور جج سیسمنس کی جگہ اس کے بیٹے اوتانیس کو مقرر کیا اس کے بعد اس نے فیصلہ سنایا اور حکم دیا کہ جج سیسمنس کی کھال اتاری جائے اور اس کی کھال کو جج کے بیٹھنے والی کرسی پہ چڑھا دیا گیا جس پر نیا جج عدالت میں بیٹھے گا یہ کھال اسے بدعنوانی کے ممکنہ نتائج کی یاد دلائے گی۔ Otanes اپنے غور و خوض میں ہمیشہ یہ یاد رکھنے پر مجبور تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے موت کی سزا پانے والے باپ کی کھال پر بیٹھا رہتا ہے۔ اس سے اس کی تمام سماعتوں غور و فکر اور جملوں میں انصاف اور مساوات کو یقینی بنانے میں مدد ملی۔ اگر ہم اس تاریخی واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ملک کے عدالتی نظام کو دیکھیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائےگا۔ لاکھوں
کی تعداد میں مقدمے التوا کا شکار ہیں جن کا فیصلہ نہیں ہو رہا، بے گناہ لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ 25,25 سال ایک مقدمے کے فیصلے کو لگ جاتے اور ہمارے جج سیاست دانوں کی خاطر عدالتیں آدھی آدھی رات کو کھول دیتے ہیں۔ اتوار کو عدالتیں لگا دیتے ہیں مگر غریب عوام کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ جس کا ہاتھ پڑتا ہے اپنی مرضی کا فیصلہ کرا لیتا ہے اور ساتھ ساتھ ان ججوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے۔ جس ملک میں انصاف بکنا شروع ہو جائے۔۔۔ فیصلے من پسند کے ہونے لگیں تو وہ ملک بہت تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ اس ملک کی معاشی، سماجی اور تہذیبی حالت جنگل جیسی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ انصاف پسند بادشاہ ہارون رشید نے بہلول کو ہدایت کی کہ بازار جائیں اور قصائیوں کے ترازو اور جن پتھروں سے وہ گوشت تولتے ہیں وہ چیک کریں اور جن کے تول والا پتھر کم نکلے انہیں گرفتار کر کے دربار میں حاضر کریں۔ بہلول بازار جاتے ہیں، پہلے قصائی کا تول والا پتھر چیک کرتے ہیں تو وہ کم نکلتا ہے قصائی سے پوچھتے ہیں کہ حالات کیسے چل رہے ہیں..؟ قصائی کہتا ہے کہ بہت بُرے دن ہیں دل کرتا ہے کہ یہ
گوشت کاٹنے والی چھری بدن میں گھسا دوں اور ابدی ننید سو جاؤں…. بہلول آگے دوسرے قصائی کے تول والے پتھر کو چیک کرتے ہیں وہ بھی کم نکلتا ہے۔ قصائی سے پوچھتے ہیں کہ کیا حالات ہیں گھر کے، وہ کہتا ہے کہ کاش اللہ نے پیدا ہی نہ کیا ہوتا بہت ذلالت کی زندگی گزار رہا ہوں۔ بہلول اگے بڑھے، تیسرے قصائی کے پاس پہنچے تول والا پتھر چیک کیا تو بالکل درست پایا، قصائی سے پوچھا کہ زندگی کیسے گزر رہی ہے….؟ قصائی نے کہا کہ اللہ تعالٰی کا لاکھ لاکھ شکر ہے، بہت خوش ہوں، اللہ تعالٰی نے بڑا کرم کیا ہے، اولاد نیک ہے، زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے۔ بہلول واپس آتے ہیں سلطان ہارون رشید پوچھتے ہیں کہ کیا پراگرس ہے….؟ بہلول کہتے ہیں کہ کئی قصائیوں کے تول والے پتھر کم نکلے ہیں۔
سلطان نے غصے سے کہا کہ پھر انہیں گرفتار کر کے لائے کیوں نہیں۔ بہلول نے کہا اللہ تعالٰی انہیں خود سزا دے رہا تھا ان پر دنیا تنگ کر دی تھی تو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی۔ آج ہمارے بھی کچھ یہی حالات ہیں۔۔۔
ہم نے بھی دنیا کو اپنایا ہے اسی کی فکر ہے، حرام حلال اور آخرت کی فکر ہی نہیں….!!! قارئین یاد رکھیے جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں وہ قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔ تباہی سے مراد یہ نہیں کہ وہ سمندر بُرد ہو جاتیں ہیں یا ان کا وجود باقی نہیں رہتا۔۔ وہ کھلی آنکھوں سے اور مردہ ضمیری سے بھوک، لا قانونیت، ناانصافی، غرور، تکبر، گھمنڈ، دولت کی پرستش کے ہاتھوں خود بخود جیتے جی ہی تباہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے آج کل ہم ہو رہے ہیں۔ جو تباہی تاریخ کے ہاتھوں ہوتی ہے اس تباہی کے نقوش صدیوں تک دھرتی پر ثبت رہتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.