اِس وقت ملک بدترین معاشی وسیاسی بحران کاشکار ہے لیکن معاشی ماہرین ہیں یا سیاستدان، سبھی اپنی ذمہ داریوں سے صرفِ نظر کررہے ہیں سیاستدان تو ہر وقت داؤ کی تاک میں ہیں جسے جہاں مفاد محسوس ہوتا ہے وہیں بیانیہ تک بدل لیتا ہے ملک کی معیشت جس طرح تباہی کے دہانے پرجا پہنچی ہے اُس کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام جماعتیں اور سیاستدان وقتی طورپر اختلافات بالائے طاق رکھ کر معیشت کی بحالی کے یک نکاتی نُکتے پر سرجوڑ کر بیٹھیں اور وطنِ عزیز کو معاشی بحران کے گرداب سے نکالیں لیکن ملک دیوالیہ ہو یا اشیائے ضروریہ کی درآمد کے لیے بھلا ادائیگی تک کے لیے پاس کچھ نہ ہوکسی کو کوئی فکر یا احساس تک نہیں ایک گروہ ہر صورت اپنی حکومت برقرار رکھنا چاہتا ہے ایسے حالات میں جب بندرگاہوں پر روزمرہ اشیا سے بھرے جہازکھڑے ہیں اور ہمارے پاس ادائیگی کے لیے ڈالر تک نہیں علاوہ ازیں اگلے تین ماہ کے دوران بیرونی قرضوں کی مدمیں بتیس سے چونتیس ارب ڈالرکی بھاری ادائیگیاں کرنا ہیں جس کابندوبست ہوتانظر نہیں آتا مگرعوام کومعاشی بحالی کی ایسی خوشخبریاں سنائی جا رہی ہیں جن کا حقیقت سے دورکا بھی واسطہ نہیں جبکہ دوسرا گروہ چاہتا ہے کہ فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل اور نئے انتخابات کرائے جائیں اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب روزمرہ اشیاخریدنے کے لیے ڈالر نہیں نیزبھاری ادائیگیوں کا بلند ترین پہاڑ سر پرہے اِن حالات میں کیا ملک فوری طورپر ستر سے اسی ارب روپیہ انتخابات کی نذر کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے ظاہر ہے مخدوش مالی حالات کی بناپرایسا سوچنے یا کرنے کو حماقت کے سواکوئی اور نام نہیں دے سکتے اِس لیے حکومتیں برقرار رکھنے اور فوری طورپر انتخابات کے متمنی دونوں گروہوں کو چاہیے کہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک کی بہتری کے لیے ایک ہو جائیں اور مل بیٹھ کر بدترین معاشی وسیاسی بحران کے خاتمے کے لیے وسیع ترمکالمہ کریں نیز غیرضروری درآمدات اور اخراجات ختم کرنے کی تدبیر سوچیں تو نہ صرف معاشی بحران کم ہو سکتا ہے بلکہ سیاسی استحکام کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے بشرطیکہ خلوصِ نیت کا مظاہرہ کیا جائے اگر گروہی مفاد سے بالاتر ہوکر ملک کے بارے سوچا نہیں جاتا تویا د رکھیں یہ سیاستدانوں کی بالغ نظری نہیں ہوگی بلکہ اِس طرح وہ رہی سہی اپنی ساکھ سے بھی تہی دست ہوسکتے ہیں۔
ملک کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنا مرے کو مزید مارنے کے مترادف ہے عمران خان کا خیال ہے کہ اگر کے پی کے اور پنجاب کی دونوں اسمبلیاں بیک وقت توڑ دی جائیں تو عام انتخابات یقینی ہیں وہ موجودہ حکومتی سیٹ اَپ کا ذمہ دارسابق عسکری سربراہ قمرجاوید باجوہ کو ٹھہراتے ہیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ پنجاب،کے پی کے،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی اور اُس کی اتحادی جماعت کی حکومتیں ہیں اگربقول عمران خان حکومتوں کی تشکیل میں سابق عسکری قیادت کا ہاتھ ہونے کے الزام کو درست تصور کر لیا جائے تو اِس حقیقت کو کوئی بھی
جھٹلانہیں سکتا کہ ملک کے بڑے حصے پرآج بھی عمران خان اور اُن کے اتحادیوں کی حکومت ہے کیونکہ بلوچستان میں مختلف جماعتیں شریکِ اقتدار ہیں پی ڈی ایم تو محض وفاق اور سندھ کی حدتک اقتدارمیں ہے عمران خان اپنے ایامِ حکمرانی کے آخرمیں اتحادی الگ ہونے کی بناپرہی اقتدار سے محروم ہوئے اب واحد اتحادی رہ جانے والی ق لیگ سے بھی دوریاں پیداہونے لگی ہیں جس کی وجہ ہرجگہ بغیر سوچے سمجھے سابق عسکری سربراہ کو تنقید کا نشانہ بناناہے یادرہے اُن کی مدتِ ملازمت کی توسیع میں تمام جماعتیں متفق اور کوشاں رہیں اسی لیے اب تنقید پرکچھ حلقے حیران اور اِس عمل کو بلاجواز قراردیتے ہیں یہ حلقے جاننا چاہتے ہیں کہ اگر خرابیاں تھیں تو عہدے پر برقرار رکھنے کی نوازش کن وجوہات کی بناپر کی گئی؟ اِس حقیقت کو بھی کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ ملک کو جب بھی مالی ضرورت پڑی اور حکمران بے بس ہوئے تو جنرل باجوہ نے سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور چین جیسے ممالک کے خود دورے کیے اورملک کی مالی ضرورت پوری کرائی انھوں نے ہمیشہ ملکی مفاد پیشِ نظر رکھااسی بناپر حالیہ تنقید کو محب الوطن حلقے ہضم کرنے سے قاصر اور مضطرب ہیں مشاورت سے فیصلے کرنے یااتحادی جماعت کو ساتھ لیکر چلنے کے بجائے اکیلے فیصلہ کرنے کی علت عمران خان کو سیاسی طورپر تنہا کرتی جارہی ہے قمرجاوید باجوہ کو ہدفِ تنقید بنانے پر چودھری پرویز الٰہی غصے میں کئی ایسی سخت باتیں کرگئے جن کی اُن سے کسی کو توقع نہ تھی اسی وجہ سے اب پی ٹی آئی اور ق لیگ کا اتحاد مزید چلنا فہمیدہ حلقے معجزہ قراردیتے ہیں بلکہ یہ اتحادکسی بھی وقت پنجاب تک میں ختم ہونے کا امکان ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو عمران خان کی مقبولیت اپنی جگہ،لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ عمران خان کسی کو ساتھ لیکر چل ہی نہیں سکتے یہ سوچ مقبولیت بڑھانے کا باعث تو ہر گز نہیں بن سکتی۔
پنجاب میں کھیل انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا ہے یہاں حکومت اسمبلی توڑناچاہتی ہے جبکہ اپوزیشن اسمبلی بچانے پرکمربستہ ہے عمران خان لبرٹی چوک لاہور میں جلسے سے خطاب کے دوران 23دسمبرجمعہ کوپنجاب اورکے پی کے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر چکے ہیں جس کے لیے وزرائے اعلیٰ نے دستخط شدہ تحریر انھیں دے رکھی ہیں مگر اعلان پر عملدرآمد ہونے سے قبل ہی گورنر نے صوبائی وزیرحسنین بہادردریشک کی ناراضی اور استعفے،پی ٹی آئی چیئرمین کو لاعلم رکھ کر خیال کاسترو کو وزیربنانے نیز اپنی پارٹی کے سربراہ کا اعتماد کھونے کو بنیا د بنا کر آئین کے آرٹیکل 130(7)کے تحت نہ صرف پنجاب اسمبلی کا اجلاس اکیس دسمبر بدھ شام چاربجے طلب کر لیاہے بلکہ قائدایوان کو دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کی بھی ہدایت کردی ہے اِس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپوزیشن نے تحریکِ عدمِ اعتمادبھی جمع کرادی ہے مگر یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک عنایت اللہ لک کی طرف سے وصول کرنے پر لوگ کافی حیران ہیں وہ رات ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ اسمبلی کِس کام سے آئے؟ کیونکہ رات کا یہ وقت ایسا ہے جب اسمبلی ملازمین تک گھروں کو جا چکے ہوتے ہیں لیکن عنایت اللہ لک کو کیا مجبوری آن پڑی تھی کہ نہ صرف خود پنجاب اسمبلی پہنچے بلکہ عدمِ اعتماد کی تحریک بھی خود وصول کی مزید قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ عنایت اللہ لک مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعدسبکدوش ہوئے تو خاص طورپرنظرِ عنایت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے اُنھیں ایک برس کی توسیع دے دی جس کا مطلب ہے وہ کافی بااعتماد ہیں وگرنہ ایسی نوازشات ناقابلِ فہم ہیں اسی لیے اِن قیاسات کو تقویت ملتی ہے کہ تحریک پیش ہونے سے پنجاب حکومت لاعلم نہیں بلکہ جو بھی ہورہا ہے بقول صحافی کہیں نہ کہیں رضامندی شامل ہے اب اگر پی ٹی آئی ووٹ نہیں دیتی اور قائدِ ایوان اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہتے ہیں تو نہ صرف اُنھیں اتحادتوڑنے کا جواز مل جائے گا بلکہ وہ اپناسیاسی وزن دوسری طرف ڈال کر دوبارہ وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں اور اگرووٹ دینے کا کڑواگھونٹ پی لیتی ہے تو ووٹ لے کر بھی اسمبلی نہیں توڑی جاتی تب بھی پی ٹی آئی ہی خسارے میں رہے گی اِس اعتماد اور بداعتمادی کے کھیل میں حلیف اور حریف شاید بدل جائیں مگراِس میں شائبہ نہیں رہا کہ سیاسی چالیں چلتے ہوئے سیاستدان ملک کی معاشی صورتحال کویکسر فراموش کر چکے ہیں جو ملک و قوم کی بدقسمتی ہے قوم کے حقیقی مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے سیاسی قیادت نے اپنی ساری توجہ اقتدار چھیننے اور برقرار رکھنے پر دے رکھی ہے جسے ملک وقوم کی خدمت ہرگز نہیں کہہ سکتے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.