پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی

42

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام میں شدت آ گئی ہے اور ملک بدترین معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ ملک میں حکمران صرف اور صرف اقتدار کے لئے لڑ رہے ہیں ان کو شاید نظر ہی نہیں آ رہا کہ معاملات کتنے خراب ہو گئے ہیں۔ اگر معاشی حالات کو دیکھا جائے تو وہ کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ عام انتخابات ہو جائیں مگر معیشت اس چیز کی اجازت نہیں دیتی نہ ہی حکومت مانتی ہے کیونکہ حالات دن بدن خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری افراد و فیکٹری مالکان بھی پریشان ہیں۔ ڈالر کی اڑان میں کمی نہیں آ رہی، روپے کی قدر میں مسلسل کمی آ رہی ہے، برآمدات گر رہی ہیں، ترسیلات زر گر رہی ہیں، بزنس کانفیڈنس مسلسل گرتا چلا جا رہا ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے، شرح سود بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاملات طے نہیں پا رہے۔ چند روز قبل وزیر خزانہ نے پیٹرول کی قیمت میں دس روپے اور ڈیزل کی قیمت میں سات روپے کمی کا اعلان کیا ہے مگر یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ آئی ایم ایف نے جو 800 ارب ٹیکس کا مطالبہ کیا ہے، وہ کیسے پورا ہو گا؟
بالفاظ دیگر کہیں سے بھی مثبت معاشی اشاریے نظر نہیں آ رہے۔ سیاسی اور معاشی غیر یقینی کی صورتحال سٹاک مارکیٹ پر بھی شدید اثر انداز ہو رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ملک میں سیاسی صورتحال ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھی چیز ایک جگہ نہیں بیٹھ رہی۔ پاکستان بزنس کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے پر عمل درآمد کو غیر سیاسی رکھا جائے اور تمام جماعتیں مشکل فیصلوں کو سپورٹ کریں جس میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی بھی شامل ہے۔ ملک پر چڑھے قرضوں کو رول کرنا ہو گا اس لیے قرضوں کی رجسٹریشن کی جائے، افغانستان کی طرف زرمبادلہ کی سمگلنگ کو روکا جائے، حکومت اپنے اخراجات کم کرے، جس میں دفاع کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ ریٹیل ہول سیل اور رئیل سٹیٹ کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ صوبوں کو اضافی بجٹ سرپلس دینے پر راضی کیا جائے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو ضروری اشیا کی درآمدات کے لیے بچایا جائے۔ توانائی کی بچت کی جائے اس کے لئے ورک فرام ہوم، مارکیٹ شادی ہال کو جلد بند کرانے اور گیس کی
قیمتوں کو ڈیبیو کیا جائے۔ اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر محض چھ اعشاریہ سات کی خطرناک سطح پر ہیں۔ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ میں پچیس روپے کا فرق ہے جس سے بینک چینل سے آنے والی ترسیلات زر متاثر ہو رہی ہیں کیونکہ پاکستان کا موازنہ بنگلہ دیش سے کیا جائے تو نومبر کے مہینے میں پاکستان کی ترسیلات زر میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 14 فیصد کمی دیکھی گئی مگر بنگلہ دیش کی ترسیلات زر میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 2.6 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ پاکستان کی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سے آنے والی ترسیلات زر میں 20 فیصد کمی دیکھی گئی۔
برطانیہ اور امریکہ سے آنے والی ترسیلات زر میں بھی پانچ فیصد اور چھ فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے مگر بنگلہ دیش کی متحدہ عرب امارات سے آنے والی ترسیلات زر میں 47 فیصد اضافہ دیکھا گیا، امریکا سے آنے والی ترسیلات زر میں 12 فیصد اور برطانیہ سے آنے والے ترسیلات زر میں دو فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ تاہم بنگلہ دیش کی سعودی عرب سے آنے والی ترسیلات زر میں 19.5 کی کمی رہی، اگر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش میں بھی ڈالر کے آفیشل ریٹ ان آفیشل ریٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے ترسیلات زر پر دباو¿ ہے۔ اگر پاکستان سے اس سال ساڑھے سات لاکھ لوگ نوکری کرنے والوں سے باہر گئے ہیں تو بنگلہ دیش میں 8 لاکھ سے زائد لوگ ملک سے باہر نوکری کرنے گئے ہیں، اس لئے بھی طلب میں واضح کمی دیکھی گئی ہے مگر اس سارے معاملے کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم تمام چیزیں دیکھیں تو معاملات انتہائی نازک صورتحال میں ہیں۔ ملک میں غیر یقینی کی صورتحال نے سب کو پریشان کر رکھا ہے، کاروباری بندہ الگ پریشان ہے اور نوکری پیشہ الگ۔ مہنگائی بڑھنے سے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ ملک میں سیاسی صورتحال کا کسی ایک جگہ نہ بیٹھنا ہے اور ایک پارٹی اور اپوزیشن میں بیٹھتی نہیں تو دوسری اپنی ہار تسلیم نہیں کرتی اس سے ملکی معاملات انتہائی خراب ہیں جس سے بہت دکھ ہوتا ہے اور یہی سوچتے ہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ اگر معاملات ایسے ہی رہے تو ہم کبھی کامیاب نہیں ہونگے نہ ہی ہمارا ملک سسٹم کی جانب آ سکے گا۔

تبصرے بند ہیں.