ثاقب مصطفائی علماءکرام کی صف میں بڑے معتدل مزاج کے حامل خطیب ہیں، عوام ان کے خطابات بڑے ذوق اور شوق سے سنتے ہیں،وہ بڑے سہل انداز میں ان تمام خرافات پر راہنمائی فرماتے ہیں،کہ مشکل سے مشکل مسائل بھی باآسانی سمجھ آ جاتے ہیں،عوامی انداز میں اِنکی گفتگو دل چھو لیتی ہے۔
انکی ایک وڈیو وائرل ہوئی ،جس میں انھوں نے واقعہ بیان کرتے ہوئے امت کی حالت زار کا نقشہ کچھ یوں کھینچا، کہ ایک نوجوان نے انھیں دعوت دی کہ ان کے ساتھ جاپان چلیں، جہاں آپ کو جھوٹ بولنے ،دھوکہ دینے والا کوئی فردنہیں ملے گا، ملاوٹ کا تو کوئی شائبہ نہیں حالانکہ ان کا کوئی مذہب نہیں، اخلاقی اعتبار سے اس کاشمار دنیا کی پہلی قوم میں ہوتا ہے، نوجوان نے کہا کہ آپ کو یہاں تبلیغ کرتے 30سال سے زائد کا عرصہ ہوا ہے مگر کچھ بھی نہیں بدلا، اگر سارے علماءاخلاقیات سنوارنے میں لگے رہے تو اس دنیا کو کب مسخر کریں گے جس کی امامت ، قیادت کام اس امت سے لیا جاناہے،موصوف فرماتے ہیں کہ اس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر ہماری بات عوام کے دل پر اثر کیوں نہیں رکھتی؟
سچ تو یہ ہے تحقیق کا جوکام اور انسانی خدمت غیر مسلم انجام دے رہے ہیں یہ فریضہ تو امت مسلمہ کو ادا کرنا چاہیے تھا، لیکن یہ تو خرافات میں کھو گئی ،عیاشی میں مگن ہے، تعلیم سے کوسوں د ور ،ٹیکنالوجی ہو یا معاشی ترقی اس کو غیروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔منبرو محراب سے جو کچھ کہا جارہا ہے اس سے دنیا کا کھوج لگانا تودرکنار اس سے امت کا اتحاد ہی خطرے میں ہیں۔
معروف مدرس خالد محمود عباسی نے فکری سوال اٹھایا ہے سارے مسلمان وراثتی ہیں، یہ سب مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے انکی تعداد بہت کم ہے جو شعوری طور پر ایمان لا کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ، اسی طرح ہندو ،عیسائی،سکھ ،یہودی کے گھر پیدا ہونے والا بھی اسی طرح اپنا مذہب رکھتا ہے جس طرح ہم مسلمان کے گھر پیدا ہو کر مسلم ہیں۔
سید مودودی نے فرمایا کہ یہ لوگ قانونی طور پر غیر مسلم اور کافرہیں لیکن اس طرح کے نہیں ،جس طرح ابو جہل تھے کیونکہ ان کے عہد میں نبی کی آمد پر اتمام حجت ہوچکی تھی،ساری باتیں اس پر منکشف ہو چکی تھیں، اتمام حجت تو انبیاءہی کر سکتے ہیں، اب کسی کافر پر اس طرح اتمام حجت نہیں ہوا جس طرح نبی کے زمانے میں ہو کیونکہ اب مسلمان ایسا کام کر ہی نہیں رہے، جس سے متاثر ہو کر کافر مسلم ہو جائیں ، اسی طرح مسلمان بھی قانونی طور پر مسلم ہیں۔
محترم جاوید احمد غامدی کا موقف ہے کہ ہم دائرہ سے باہر افراد کو کافر نہیں بلکہ غیر مسلم کہہ سکتے ہیں، اس لئے کہ اتمام حجت تو نبی ہی کر سکتا ہے تو یہ حقیقی کافر نہیں ہیں،اس کے برعکس مولانا خالد محمود عباسی کا کہنا ہے نبوت اللہ تعالی نے ختم کر کے کچھ چیزیں متبادل کے طور پر دی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کے علاوہ پرانی کسی کتاب کو محفوظ نہیں کیا ہے۔دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے امت کا ادارہ قائم اور مامور کیا ہے،اس میں بعض افراد کو چنا، وہی اس کے وارث ہیں ،ساری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوتی،اس میں مجتہدین آتے اور دنیا کے سامنے اصل اورتازہ دین پیش کرتے رہیں گے ۔کوئی حق کا متلاشی ہو تو اس کو بھٹکنا نہ پڑے اور حق اس تک پہنچ جائے۔ ہرسمجھ دار کے سامنے حق موجود رہے گا۔یہ ایک درجہ کی اتمام حجت ہے۔
تاہم دنیا کو اتمام حجت جو مطلوب ہے، وہ کم سے کم یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ کا نظام عدل قائم کرکے ہم دکھا دیتے کہ یہ وہ حق کا نظام اور اجتماعی نظام عدل ہے جو بنی آخرالزمان دے کر گئے تھے۔رسالت کا اصل قائم مقام ادارہ خلافت کا وجود میں آنا ہے،اگر یہ ہوتا اتمام حجت پوری دنیا پر قائم ہو جاتی ، گوبل ولیج کے اِس دور میں ایک ا سلامی ریاست بھی قائم ہو جائے اورنظام خلافت پوری آن شان سے نافذ العمل ہوتو اتمام حجت کے لئے کفایت کر جاتا ہے۔
آج بھی بہت سے انسان حق کے متلاشی ہیں، اس کی مثال ہندوہستان میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ہے جہاں لاکھوں کے اجتماع میں روازنہ کی بنیاد پر لوگ کلمہ پڑھ اسلام قبول کرتے تھے،اگر اسلامی ریاست کا وجود اس کرہ ارض پر ہو جو دکھی انسانیت کے لئے جائے پناہ بن جائے ،تو تصور کریںکتنے افراد اسکی وساطت سے دائرہ اسلام میں داخل ہوں گے۔ اخلاقی لحاظ سے پوری امت وکٹری سٹینڈ کے نچلے درجہ پر موجود ہے اس قحط الرجال میں بھی غیر مسلم کا شعوری طور پر مسلم ہونا اسکی حقانیت کی پختہ دلیل ہے۔
روایت ہے بڑی مسلم شخصیت روس کے دورہ پر گئی جب کیمونزم کا طوطی بولتا تھا،، اس ہستی نے روس کے ایک ذمہ دار کے سامنے اسلامی نظام کا مکمل خاکہ رکھا ،اِسکی فیوض و برکات سے رام کرنے کی کاوش کی، کیمونزم کے فریب میں مبتلا فرد نے سب کچھ سنا، اسکی خصوصیات کا اعتراف بھی کیا،داعی سے پوچھاکوئی ایسی مثال پیش کریں جہاں یہ نظام عملاً نافذ ہو، ان کا جواب نفی میں تھا۔
جید علماءکرام خو د کو انبیاءکے وارث قرار دیتے ہیں،لاکھوں کی تعداد میں ان کے پیروں کار ہیں، مگر اس جہاں میں لاکھوں انسان ایسے ہیں، جو پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکتے، جنہیںزندگی کی بقا کے لئے اپنی عزت کا سودا کرنا پڑتا ہے، غیر مسلم نظام حقانی کے متلاشی ہیں جو انھیں دنیا میں راحت ، انھیں بھاری ٹیکس، معاشی تفاوت سے نجات اور ذہنی آسودگی عطا کر سکے۔
سید مودودی کی بات وزن ہے کہ دنیا کے کافر حقیقی کافر نہیں، وہ پیدائشی ہیں، تو امت مسلم کے زعماءکس مقام پر کھڑے ہوں گے، جب قیامت کے روز اللہ کے نبی ان علماءکرام سے پوچھیں گے کہ میرے وارثین تمھارے سامنے دنیا میں ظلم ہوتا رہا، تمھارے پاس اللہ کی کتاب تھی ، تم اس کے داعی تھے پھر بھی انسانیت دھوکہ دہی کا شکار رہی، لوٹ مار کا بازار کیوں گرم رہا، ملاوٹ اور بد یانتی کا چلن عام رہا کمزور پر ظلم ہوتارہا ، تو لاکھوں کے اجتماع کے ان دعویٰ دار وں کے پاس کیا جواب ہو گا، اسلامی ریاست کے قیام سے اتمام حجت کی تکمیل تو امت مسلمہ کے فرائض میں شامل ہے، جو پوری انسانیت کے لئے رول ماڈل ہوتی۔
ثاقب مصطفائی کا یہ موقف مبنی پر حقیقت ہے کہ ہم ابھی تک لوگوں کو فریب، دھوکہ دہی،لاقانونیت کی خرافات ہی سے نہیں نکال سکے تو دنیا کو کب مسخر کریں گے؟ اللہ کی سرزمین پر اللہ کے نظام اور عدم نفاذ کے مرتکب ہونے کی علماءکیا دلیل رکھتے ہیں بہتر جانتے ہیں۔
مگر یہ سوال انبیاءکے وارثین سے پو چھا جانا ہے۔ کہ جب انسانیت دم توڑ رہی تھی ، لاچار اور بے بس انسان انصاف کے لئے قیامت کے منتظر تھے،تو تم نے ایک آزمودہ اجتماعی عدل نظام سے صرف نظر کیوں کیا جس میں انسانوں کے لئے عافیت کا کافی ساماں موجود تھا، سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھنے والے علماءکرام کے لئے خلافت کے ادارہ کا قیام اتمام حجت کے لئے لازم نہیں؟ کیا وہ اس کے لئے کوشاں ہوں گے؟جس کا راستہ اسلامی ریاست کے قیام کی طرف جاتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.