عمران خان پر قاتلانہ حملہ۔۔۔؟

61

جمعرات 3نومبر کی شام کو وزیرِ آباد کے اللہ والے چوک میں تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں ہراول کے طور پر شامل جناب عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ جسے بعد میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کا نام دیا گیا کی تھانہ سٹی وزیرِ آباد میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر یا مقدمہ سپریم کورٹ کے پیر کو جاری کیے گئے حکم کے مطابق درج ہوا ہے اور اس میں قتل، اقدام قتل، اور دہشت گردی سمیت اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔ ایف آئی آر میں موقع پر گرفتار مسمی نوید کو باقاعدہ ملزم نامزد کیا گیا ہے۔ 3نومبر کو پیش آنے والے واقع Incidentکے تھانہ میں اندراج میں چار دن یا کم از کم 96گھنٹے کی تاخیر کیوں ہوئی؟، اس کی بڑی وجہ تحریک انصاف کے قائدین کی طرف سے یہ مطالبہ تھا کہ عمران خان پر فائرنگ یا قاتلانہ حملے میں وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف، وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ اور آئی ایس آئی سے تعلق رکھنے والے فوج کے میجر جنرل رینک کے ایک حاضر سروس اعلیٰ افسر کو بھی بطورِ ملزمان نامزد کیا جائے۔ پنجاب پولیس ہی نہیں بلکہ پنجاب کی صوبائی حکومت ایف آئی آر میں ان نامو ں کو شامل کرنے پر راضی نہیں تھے۔ خیر سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ایف آئی آر کا اندراج ہو گیا ہے، آگے معاملات کیسے چلتے ہیں وقت آنے کے ساتھ ہر بات واضح ہوتی جائے گی۔ فی الحال دیکھتے ہیں کہ یہ لانگ مارچ کتنے مراحل طے کر چکا ہے اور اس کے نتیجے میں کیا کچھ حالات و واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
تحریک انصاف یا عمران خان کا یہ لانگ مارچ جو 28اکتوبر کو لبرٹی چوک لاہور سے شروع ہوا تھا، ساتویں دن یعنی 3نومبر کو وزیر آباد پہنچ پایا تھا اور اس دن شام کو جناب عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کا واقع پیش آیا تو اس دن سے یہ لانگ مارچ وہیں رُکاہوا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق جمعرات 10نومبر کو اس کے GTروڈ پر پنڈی کو روانگی اور اگلے 10سے 14دنوں میں اس کے وہاں پہنچنے کا پروگرام سامنے آ چکا ہے۔ جناب عمران خان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے بجائے تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اب لانگ مارچ کی قیادت کریں گے۔ معروضی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لانگ مارچ حکومتِ وقت بالخصوص اسٹیبلشمنٹ پر کوئی بڑا دباؤ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ البتہ ایسے انڈے بچے دے چکا ہے اور دے رہا ہے جوبہرکیف پوری قوم کے لیے پریشانی یا انتہائی درجہ کے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وزیرِ آباد  میں عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کا واقعہ یا جناب عمران خان پر قاتلانہ حملہ کوئی کم تشویش کی بات نہیں تھی بلا شبہ یہ ایک ایسا واقعہ Incident جس کے ملک و قوم کے مستقبل پر دور رس اور پریشان کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس واقعے کے نتیجے میں تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہروں کے دوران ملک کے مختلف مقامات بالخصوص راولپنڈی اسلام آباد، روات، ٹیکسلا، پشاور اور لاہور میں کچھ جگہوں پر جو صورتحال سامنے آئی بلاشبہ اسے انتہائی المناک ہی نہیں تشویشناک گردانہ جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہروں اور اس کے لانگ مارچ کے دوبارہ شروع ہونے اور راولپنڈی اسلام آباد میں پہنچ پانے اور جناب عمران خان کے اعلان کے مطابق یہاں لاکھوں مظاہرین کا دھرنا دینے اور اس وقت تک یہ دھرنا جاری رکھنے جب تک کہ میاں شہباز شریف کی حکومت مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کر دیتی تک ملک و قوم کے معروضی حالات میں کیا تبدیلیاں آسکتی ہیں اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس وقت یہی سمجھا جا رہا ہے کہ نا تو حکومت جناب عمران خان کے دباؤ اور ان کے مطالبات کے سامنے جھکنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ ان سے کسی طرح کی رُو رعایت اور ان کے ناز نخر ے برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔ جناب عمران خان  اور ان کے قریبی ساتھیوں کے بعض رویوں، اقدامات اور باتوں سے بھی بعض اوقات جھلکتا ہے کہ انھیں خود بھی اندازہ  ہو چکا ہے کہ ان کے مطالبات ہی غیر منطقی اور غیر مناسب نہیں ہیں بلکہ ان کا منوانا بھی لوہے کے چنے چبوانے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب عمران خان کبھی اعلیٰ عدلیہ سے یہ توقع باندھتے ہیں کہ وہ ان کی اشک شوئی کرے اور ان کے لیے کوئی راستہ نکالے اور کبھی بیک ڈور چینل کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب تو انھوں نے اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدرِ مملکت کو خط لکھ دیا ہے جس میں ان سے بقول ان کے آئین و قانون کے انحراف کی راہ روکنے کے لیے اقدامات اُٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جناب عمران خان کا صدر مملکت سے خط کے ذریعے اس طرح کا مطالبہ کرنا اس سیاق و سباق میں اور بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس سے قبل صدرِ مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی کی بڑی کوششوں اور کاوشوں سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ عمران خان سے ملاقات کرنے پرآمادہ ہوئے تھے اور وہ ملاقات عمران خان کی ضد کی وجہ سے بے سود ثابت ہوئی تھی۔ اسی ملاقات کا حوالہ کچھ دن قبل آئی ایس آئی کے چیف جنرل ندیم انجم نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا "جب جھوٹ اتنی آسانی، روانی اور فراوانی سے بولا جانے لگے تو سچ کی لمبی خاموشی بھی ٹھیک نہیں ہوتی”۔
کالم میں گنجائش کم ہونے کے باوجود  تھوڑا سا تذکرہ اس حوالے سے جمعرات 3نومبر کی شام جناب عمران خان کے لانگ مارچ میں ان کے کنٹینر پر فائرنگ کی مبہم سی خبر سنی  تو واقعی دکھ اور پریشانی ہوئی کہ اللہ خیر کرے اس کے نتیجے میں ملک و قوم کو کتنے نقصانات اور صدمے برداشت کرنا پڑیں گے۔ معروف اینکر پرسن، سینئر صحافی اور یوٹیوب وی لاگر سید طلعت حسین جو کب سے میرے پسندیدہ صحافی اور اینکر پرسن ہیں ان کا یوٹیوب وی لاگ پروگرام STHمیں عمران خان کے کنٹینر پر حملہ کے بارے میں کچھ تفصیلات سامنے آئیں تو میں نے اپنے کمنٹس میں لکھا "افسوسناک صورتحال، اللہ کریم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، اگر یہ کوئی قاتلانہ حملہ ہے یا ملک و قوم کے خلاف فتنہ فساد کی سازش ہے تو اس کے کردار سامنے لا کر انھیں کیفر کردار تک پہنچانا ہر صورت لازم ہے۔ پنجاب حکومت اور وزیرِ اعلیٰ آگے بڑھ کر ضروری اقدامات کرے، حقائق ہر صورت سامنے آنے چاہیے۔”

تبصرے بند ہیں.