خواجہ فرید یونیورسٹی میں مبینہ غفلت

33

گزشتہ دنوں میرے ایک قاری نے مجھے ایک درخواست وٹس ایپ کی جس میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان کی انتظامیہ کی مبینہ غفلت سے بلڈنگ گرنے کے خلاف انکوائری کے لئے پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کو درخواست دی گئی تھی۔ میں نے اس کے جواب میں انہیں کہا ایسی درخواست تو کوئی بھی لکھ کر بھیج سکتا ہے، تو پھر انہوں نے مجھے ہائر ایجو کیشن کمیشن کا ایک خط بھیجا جس میں چیف منسٹر انسپیکشن ٹیم کی انکوائری کی سمری کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ چیف منسٹر انسپیکشن ٹیم کی انکوائری رپورٹ کے منٹس کے مطابق ناقص تعمیر کی وجہ سے خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کمیونٹی سینٹر کی بلڈنگ دورانِ تعمیر ہی ناکارہ ہو گئی۔ اس رپورٹ کے مندرجات بڑے حیران کن تھے۔ چیف منسٹر انسپیکشن ٹیم کی سفارشات کے مطابق یونیورسٹی میں بننے والی نئی عمارت کو اس وقت تک استعمال نہ کیا جائے جب تک اس کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد اسے کلیئر نہیں کر دیا جاتا لیکن انتظامیہ نے ان سفارشات کو پسِ پشت ڈال کر چار نئے ہوسٹلز میں طلباء و طالبات کو اکاموڈیشن فراہم کر دی۔
تفصیلات کے مطابق حکومتِ پنجاب نے1904 ملین کا یہ منصوبہ2019ء میں منظور کیا تھا۔ اس سارے منصوبے میں 4 کروڑ روپے نگرانی اور مشاورت کے لئے رکھے گئے تا کہ اس کا ڈیزائن اور سٹرکچر مضبوط ہو اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے نہ تو کوئی چیف انجینئر ہائر کیا اور نہ ہی کسی معقول کنسلٹنٹ فرم کو ہائر کیا۔ پیپرا رولز کے مطابق کنسلٹنٹ مقرر کرنے کے لئے سلیکشن کمیٹی بنانا لازمی ہے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے ملی بھگت سے بوگس فرم کو بطور کنسلٹنٹ مقرر کر دیا۔ ظاہر ہے اتنا بڑا پراجیکٹ تھا جس کے لئے کوالیفائیڈ انجینئر کی ضرورت تھی جس کو نظر انداز کرنے کا انجام یہ ہوا کہ کمیونٹی سینٹر زمین بوس ہو گیا۔ جس سے نہ صرف ادارے کی نیک نامی پر حرف آیا بلکہ قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ حد
تو یہ ہے کہ جو پراجیکٹ 1904 ملین کی لاگت سے مکمل ہونا تھا اس کی لاگت 2500 ملین تک پہنچ گئی۔ جب اس زائد ادائیگی کی منظوری کی درخواست پلاننگ ا ینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے پاس گئی تو اس نے یہ اعتراض لگا کر واپس کر دی کہ پہلے چیف منسٹر انسپیکشن ٹیم کی ہدایات کے مطابق انکوائری کی جائے۔ انتظامیہ نے اس پراجیکٹ میں اقربا پروری کی انتہا کر دی ہے اور اکثر کاموں کے لئے اپنے رشتہ دار جن کو اس طرح کے کاموں کا کوئی تجربہ نہیں تھا ہائر کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے من پسند لوگوں کو ٹھیکے دئیے جن کو اس حد تک تجربہ بھی نہیں تھا کہ اس بڑے پراجیکٹ کو بہترین طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے۔ اس پراجیکٹ کے حوالے سے چیف منسٹر انسپیکشن ٹیم کی سمری ہائر ایجوکیشن کمیشن کو موصول ہو چکی ہے جس کے مطابق پراجیکٹ کے لئے منظور شدہ 1904ملین کی تمام رقم ادا کی جا چکی ہے لیکن ابھی تک اس منصوبے کا کوئی حصہ بھی مکمل طور پر تکمیل کے مراحل طے نہیں کر سکا ہے۔ سی ایم آئی ٹی رپورٹ میں ٹھیکیدار اور کنسلٹنٹ کو دو سال کے لئے بین کرنے اور بلڈنگ اپنے خرچے پر بنا کر دینے کا کہا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے غافل اور ملوث اہلکاروں کو معطل کر کے پیڈا ایکٹ لگانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں ہر طرف کرپشن اورا قرباء پروری نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ہر طرف افراتفری ہے، کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ پورا ملک مالی بحران کا شکار ہے۔ کرپشن نے نہ صرف قومی منصوبوں کا ستیا ناس کر دیا ہے بلکہ معاشرہ اخلاقی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہو چکا ہے۔ جس کام کو لے لیں اس میں کرپشن کی انتہا ہے۔ کوئی منصوبہ بھی یہاں بغیر کرپشن اور لوٹ مار کے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا ہے۔ ہر محکمے میں نا اہل اور نکمے لوگوں کی بھرمار ہے۔ جب ہم انگریزوں کے غلام تھے تو یہ کہا جاتا تھا کہ کرپشن اور بگاڑ کی اصل وجہ غلامی ہے۔ جب ہم آزاد ہو جائیں گے تو ہم اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق قانون بنائیں گے۔ اپنی مرضی سے ملک کا انتظام چلائیں گے تو کرپشن اپنی موت آپ مر جائے گی۔ لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ آزادی کے بعد کرپشن نے وطنِ عزیز کی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ شروع میں یہی خیال کیا گیا کہ ابھی قوم نے تعلیمی مدارج طے نہیں کئے جونہی تعلیم عام ہو گی تو لوگوں کو شعور و آگاہی حاصل ہو گی تو کرپشن دور ہو جائے گی۔ ملک بھی ترقی کرے گا اور فرد کی بھی ترقی ہو گی۔ چناچہ قوم کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں قائم کی گئیں، بہتر سے بہتر نصاب تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ کمیشن پر کمیشن بٹھائے گئے۔ ماہرینِ تعلیم تیار کئے گئے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ تعلیم جیسے جیسے بڑھتی گئی بگاڑ عام ہوتا گیا۔ ان پڑھ غبن و غصب نہیں کرتے تھے، یہ بڑے بڑے فراڈ، چوری چکاری، غبن، سرکاری سکیموں میں ہیرا پھیری اور سازش کر کے خورد برد کرنا یہ تمام کام تعلیم یافتہ لوگ ہی کرتے ہیں۔ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مبینہ غبن تو ایک چھوٹی سی مثال ہے جب کہ یہاں تو بڑے بڑے سکینڈل کو کوئی نہیں پوچھتا۔
میری ذاتی رائے میں اگر انفرادی اورا جتماعی ہر دو سطح پر احساسِ ذمہ داری پیدا ہو جائے تو اور لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ ہمیں اپنے سے بالاتر ہستی کو جواب دینا ہے۔ وہ یہ یقین کرنے لگیں کہ ہم میں سے ہر فرد کو اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہو کر اپنے گناہوں کا حساب دینا ہے۔ جب ملک کے ہر فرد کے اندر خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا ہو جائے اور ہر فرد کی اصلاح ہو جائے تو اجتماعی ادارے اور ریاست بھی صحیح کام انجام دینے لگیں گے۔ آج دولت کی ہوس نے انسان کو خود غرض، لالچی اور حرص کا بندہ بنا دیا ہے۔ اگر ہر انسان میں جوابدہی کا تصور جا گزیں ہو جائے تو تو کرپشن اور معاشرتی بگاڑ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ جو لوگ جرم کرتے ہیں، جو قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں ان پر قانون کا شکنجہ کسا جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ اس لئے خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے معاملے پر کوتاہی نہیں کی جانی چاہئے اور وائس چانسلر سمیت جو بھی اس کوتاہی کا ذمہ دار ہے اسے قرار واقع سزا ملنی چاہئے۔ اسی میں وطنِ عزیز کی بھلائی ہے۔

تبصرے بند ہیں.